والدین کا بڑھاپا اُن کی کمزوری نہیں، بلکہ اولاد کے لیے قربِ الٰہی پانے کا موقع ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
والدین کے بڑھاپے کا زمانہ اولاد کے امتحان کا وقت ہوتا ہے؛ جہاں صبر، ادب، شکر اور اطاعت کے ذریعے بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے: شیخ الاسلام کا خطاب
بڑھاپے میں والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک دراصل ایمان کی پختگی اور روحِ شریعت کی عملی تعبیر ہے۔ اسلام نے والدین کے احترام کو محض اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ عبادت کا درجہ دیا ہے۔ جب والدین ضعیف ہو جائیں، ان کی طاقت، یادداشت اور برداشت کم ہو جائے تو یہی وقت ہوتا ہے کہ اولاد ان کے ساتھ وہی محبت، نرمی اور صبر کا مظاہرہ کرے جو کبھی والدین نے ان کے بچپن میں کیا تھا۔ اُن کی باتوں کو توجہ سے سننا، ان کی ضروریات پوری کرنا، ان کے احساسات کا خیال رکھنا، ان کے سامنے آواز نیچی رکھنا، اُن کی بات کاٹنے سے اجتناب کرنا، اور اُن کے لیے دعا کرنا، یہ سب حُسنِ سلوک کی عملی صورتیں ہیں۔ قرآن مجید نے فرمایا: فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا: یعنی والدین کے سامنے ’’اُف‘‘ تک نہ کہنا اور ہمیشہ ادب و نرمی سے بات کرنا۔ بڑھاپے میں والدین کی خدمت، صبر و احترام کے ساتھ اُن کی دلجوئی، اور اُن کے لیے دعاگو رہنا وہ اعمال ہیں جن سے اللہ کی رضا، رسولِ اکرم ﷺ کی خوشنودی اور آخرت میں جنت کی ضمانت حاصل ہوتی ہے۔
والدین کے بڑھاپے میں حسنِ سلوک کا حقیقی مفہوم
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عظمتِ والدین کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: اولاد پر لازم ہے کہ وہ والدین کے ساتھ ہمیشہ احترام اور نرمی کا برتاؤ کرے، مگر ساتھ ہی یہ امتیاز رکھے کہ شریعت میں کیا جائز ہے اور کیا ناجائز۔ اگر والد یا والدہ کسی ناجائز بات کا حکم دیں، تو شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے انکار ضرور کیا جائے، لیکن سختی یا تلخی سے نہیں بلکہ ادب اور احسان کے ساتھ، تاکہ ان کے دل کو ٹھیس نہ پہنچے۔
قرآنِ مجید نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے:
إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا۔۔۔
’’یعنی اگر تیرے پاس والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔‘‘ (سورۃ الإسراء : 23)
یہ آیت دراصل زندگی کے اُس قدرتی مرحلے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ہر انسان پر آتا ہے۔ بڑھاپا ایک ایسی حقیقت ہے جس میں طبیعت، صحت اور مزاج سب کچھ بدل جاتا ہے۔ انسان کے مزاج میں نرمی کے بجائے کبھی کبھی حساسیت، کمزوری اور جلدی رنجیدہ ہونے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس حالت کو خصوصی طور پر بیان کیا تاکہ اولاد سمجھ جائے کہ جب والدین اس مرحلے میں پہنچ جائیں، تو ان کے ساتھ زیادہ تحمل، برداشت اور نرمی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ عام طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچتے ہیں تو اولاد کی عمر چالیس پچاس برس کے قریب ہوتی ہے، یعنی وہ اپنی عملی زندگی میں مستحکم ہو چکے ہوتے ہیں، مگر والدین جسمانی و نفسیاتی کمزوری کے دَور سے گزر رہے ہوتے ہیں۔
اسی لیے قرآن مجید نے تاکید فرمائی کہ ان کے ساتھ کبھی "اُف" تک نہ کہنا، بلکہ محبت، صبر اور احسان کے ساتھ ان کی خدمت کرنا۔ بڑھاپے کا یہ زمانہ دراصل اولاد کے امتحان کا وقت ہوتا ہے؛ جہاں صبر، ادب، شکر اور اطاعت کے ذریعے بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے۔
بڑھاپا: والدین کا بچپنِ ثانی اور اولاد کی آزمائش
اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کے مختلف مراحل میں فطری تبدیلیاں رکھی ہیں۔ جس طرح بچپن میں انسان بھولا بھالا اور کم فہم ہوتا ہے، ویسے ہی بڑھاپے میں دوبارہ وہی کیفیت لوٹ آتی ہے۔ بچہ ایک بات بار بار دہراتا ہے، ضد کرتا ہے، روتا ہے، بات نہیں مانتا، بالکل اسی طرح بڑھاپے میں والدین بھی بعض اوقات ایک ہی سوال یا فرمائش بار بار دہراتے ہیں، کیونکہ ان کی یادداشت کمزور ہو جاتی ہے یا وہ بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ قرآنِ مجید نے اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ
یعنی اگر تمہارے سامنے والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔
لفظ ’’الکبر‘‘ اپنے اندر بڑھاپے کی تمام حالتوں کو سمیٹے ہوئے ہے، یعنی یادداشت کی کمی، مزاج میں تبدیلی، حساسیت، تلخ مزاجی، بیماریوں اور کمزوریوں کی کیفیت۔ یہ وہ دَور ہے جب والدین کا مزاج نوجوانی جیسا نہیں رہتا؛ وہ جلدی ناراض بھی ہو سکتے ہیں، شکوے بھی کرتے ہیں، اور کبھی کبھار غیر ضروری باتوں پر رنجیدہ بھی ہو جاتے ہیں۔
ایسے وقت میں اولاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُن کی باتوں کو برداشت کرے، ان کے رویّے کو دل پر نہ لے، بلکہ احساس، صبر اور محبت کے ساتھ اُن کی خدمت کرے۔ یہی وقت دراصل والدین کے ساتھ حقیقی احسان اور قربِ الٰہی کے امتحان کا وقت ہوتا ہے۔
اولاد کا والدین کے بڑھاپے میں صبر، نرمی اور شکرگزاری سے کام لینا
اللہ تعالیٰ نے جب والدین کے بڑھاپے کا ذکر فرمایا کہ: إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ. تو اس میں صرف عمر کا بڑھ جانا مراد نہیں، بلکہ اس بڑھاپے کے ساتھ آنے والی تمام تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔ بڑھاپا دراصل ایک ایسا مرحلہ ہے جس میں انسان کی طبیعت، مزاج، گفتگو، اور رویّے سب کچھ بدل جاتے ہیں۔ ہر شخص کو یہ مرحلہ کسی نہ کسی وقت درپیش آنا ہے، مگر خوش نصیب وہ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی میں ہی دل کو اللہ سے جوڑ لیا، دنیاوی امیدوں سے دل کو خالی رکھا، اور جو کچھ کیا، صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا۔ ایسے لوگ بڑھاپے میں بھی پُر سکون، نرم خو، شفیق اور شکر گزار بن جاتے ہیں۔
اُن کا بڑھاپا نورِ ایمان سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ شکایت نہیں کرتے، بیماری یا تکلیف
کے باوجود زبان سے صرف یہی کہتے ہیں: ’’الحمد للہ، سب خیر ہے‘‘۔ یہ دراصل اس تربیت
اور اخلاص کا نتیجہ ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی پوری زندگی میں اپنایا۔
اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ بڑھاپے کے ساتھ حالات بدلتے ہیں، والدین کی باتیں بار بار
دہرائی جاتی ہیں، وہ بھولنے لگتے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ضد یا ناراضی ظاہر کرتے
ہیں۔ اولاد کے لیے یہ کیفیت بعض اوقات آزمائش بن جاتی ہے، مگر قرآنِ مجید نے واضح حکم
دیا:
فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا أُفّ۔
یعنی جب والدین بڑھاپے میں تمہارے سامنے ہوں اور ان کا مزاج یا بیماری تمہیں پریشان
بھی کرے، تب بھی اُن کے سامنے ’’اُف‘‘ تک نہ کہنا۔
یہ آیت دراصل صبر، احسان، اور شکرگزاری کا اعلیٰ ترین سبق دیتی ہے، کہ والدین کا بڑھاپا ان کی کمزوری نہیں، بلکہ اولاد کے لیے قربِ الٰہی پانے کا موقع ہے۔
حاصلِ کلام
والدین کے بڑھاپے میں اُن کے ساتھ حسنِ سلوک دراصل بندے کے ایمان، اخلاق اور باطنی تربیت کا مظہر ہے۔ اسلام نے والدین کی خدمت کو صرف ایک سماجی ذمہ داری نہیں بلکہ قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جب والدین عمر کے آخری حصے میں کمزور، بیمار اور حسّاس ہو جائیں تو اولاد پر لازم ہے کہ وہ ان کی خدمت میں نرمی، محبت اور وقار کا پہلو غالب رکھے۔ اُن کی باتوں کو تحمل سے سنے، اُن کی ضرورتوں کا خیال رکھے، اُن کی خوشی کو اپنی ترجیح بنائے اور کبھی ان کے سامنے بے ادبی یا بے صبری کا اظہار نہ کرے۔ والدین کی ضعیفی میں اُن کا سہارا بننا، ان کے دلوں کو رنج سے بچانا اور اُن کے لیے دعا کرنا وہ عمل ہیں جو نہ صرف انسان کو دنیا میں برکت و سکون عطا کرتے ہیں بلکہ آخرت میں جنت کے دروازے بھی کھول دیتے ہیں۔


















تبصرہ