رسول اللہ ﷺ نے اہلِ مدینہ کے لیے نئے معاشرے کی بنیاد اخلاقی تطہیر اور باہمی اخوت پر قائم کی: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اگر ہمارے قول و عمل میں نرمی و اخلاق نہیں، تو سمجھ لیں ہم نے ابھی آقا ﷺ سے سچا تعلق نہیں جوڑا: شیخ الاسلام کا خطاب
جب رسولِ رحمت ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے اہلِ مدینہ کے سامنے جو پہلا خطاب فرمایا، وہ اقتدار یا سیاست کے بجائے اخلاق، عدل، محبت اور انسانیت کے سنہری اصولوں پر مبنی تھا۔ آپ ﷺ نے نئے معاشرے کی بنیاد اَخلاقی تطہیر اور باہمی اخوت پر رکھی۔ آپ ﷺ کے فرامین میں سے ہے کہ: سلام کو عام کرو، بھوکے کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو، اور راتوں کو جب لوگ سوئے ہوں، تو تم اپنے رب تعالیٰ کے حضور قیام کرو، تاکہ تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔ یہ وہ پیغام تھا جس نے اہلِ مدینہ کو امن و الفت کا گہوارہ بنا دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے واضح فرمایا کہ اصل ایمان صرف عبادت کا نام نہیں بلکہ حسنِ اخلاق، رواداری اور بندگانِ خدا کے ساتھ شفقت سے پیش آنا ہے۔ یوں اہلِ مدینہ کی بنیاد مسجد سے نہیں، بلکہ اخلاقِ محمدی ﷺ اپنانے سے رکھی گئی، جس نے تاریخِ انسانیت میں ایک بے مثال معاشرہ قائم کیا۔
رسولِ رحمت ﷺ کا اہلِ مدینہ کو پیغامِ اخلاق و انسانیت
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ گئے تو آپ ﷺ نے اہلِ مدینہ کو جو پہلا خطاب کیا وہ اخلاقیات سے متعلق تھا۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کو مکہ مکرمہ سے لوگوں نے نکالا، آپ ﷺ کی طبع میں غصہ ہو سکتا ہے، انسان ناراض ہو سکتا ہے، خفا ہو سکتا ہے، دکھی ہو سکتا ہے، رنج و ملال ہو سکتا ہے۔ حضور ﷺ کو تلواروں کے سائے میں گھیر کے لوگ کھڑے تھے اور اس حالت میں رسول اللہ ﷺ مکہ سے نکلے، پھر آپ ﷺ غارِ ثور میں رہے، اور محتاط ہو کر مدینہ منورہ پہنچے۔
ذرا انسانی جذبات کا عالم دیکھیے! جب رسولِ اکرم ﷺ مدینہ منورہ پہنچے تو اہلِ مدینہ نے آپ ﷺ کا پُر جوش استقبال کیا۔ یہ وہی ہستی ہیں جو مکہ مکرمہ میں ہر طرح کے ظلم، جبر اور تکلیف سے گزری ہیں۔ وہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا تھی، انہیں پتھروں پر لٹایا جاتا، کوڑے مارے جاتے، آگ کے ساتھ جلایا جاتا اور گھروں سے نکال دیا جاتا۔ ایسے حالات میں اگر کوئی ہستی مکہ کی ظلمتوں سے نکل کر مدینہ کی روشنی میں پہنچے اور وہاں محبت و عقیدت سے اس کا استقبال ہو، تو سوچیے، اُس وقت کے جذبات کیا ہوں گے؟ کیا اُس کے دل میں ماضی کے دکھ اور رنج نہیں جھلکیں گے؟ کیا اُس کے خطاب میں اُس دردناک ماحول کی جھلک محسوس نہ ہوگی جس سے وہ ابھی گزر کر آئے ہیں؟
اہلِ مدینہ کے لیے محبت، اخوت اور امن کا پیغام
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ: اگر دیکھا جائے تو انسانی طور پر یہ بات بالکل فطری تھی کہ نبی کریم ﷺ نئے لوگوں کو یہ سب بتاتے کہ ہم پر مکہ میں کیا کچھ گزری۔ مشرکین نے تیرہ برس تک ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، میرے ماننے والوں کو پتھروں پر لٹا کر سزا دی گئی، میں جب طائف تبلیغ کے لیے گیا تو مجھے لہو لہان کر دیا گیا، اور کئی بار تلواروں کے سائے میں گھیرا گیا۔ بظاہر تو یہ سب بیان کرنا بنتا تھا تاکہ لوگ جان سکیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر کتنی تکلیفیں برداشت کیں۔ مگر دیکھئے! جب آقا علیہ الصلاۃ والسلام مدینہ منورہ پہنچے تو آپ ﷺ نے وہاں پہنچ کر ایک لفظ بھی رنج یا ملال کا بیان نہیں کیا۔ آپ ﷺ نے نہ کسی ظلم کا شکوہ کیا، نہ کسی تکلیف کا ذکر کیا، بلکہ زبانِ رسالت سے جو پہلا کلام نکلا وہ اخلاق، محبت، امن اور اخوت کا پیغام تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
یٰۤاَیُّهَاالنَّاسُ فَقَدِّمُوا لِاَنفُسِکُم: اے لوگو! آخرت کے لیے اچھے اعمال کا ذخیرہ لے جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ اپنا خطبہ یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ آخرت کا سامان پیدا کرو کیونکہ قیامت کا دن آنے والا ہے، جو مال تمہیں دیا گیا اس میں سے کچھ صدقہ کرو، تاکہ آخرت میں آپ کے کام آ سکے اور صحابہ کرامؓ کو پہلے خطبے میں کہتے ہیں صدقہ کرو خواہ ایک کھجور کا کیوں نہ ہو اور غریب کی مدد کرو۔
آپ ﷺ نے مزید فرمایا: اگر مدد کے لیے کھجور بھی نہ ملے تو لوگوں سے عمدہ گفتگو کرو، نرمی کی گفتگو کرو، کیونکہ نرمی کی گفتگو سے بھی تمہارے گناہ بخشے جائیں گے، جنت ملے گی اور نرم گفتگو کا اجر ملے گا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے مزید کہا کہ:
ذرا غور کیجیے! رسول اللہ ﷺ جس ماحول سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے، اگر انسانی جذبات اور نفسیات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر عام طور پر انسان کا لہجہ کیسا ہوتا ہے۔ آپ اپنی روز مرہ زندگی میں مذہبی رہنماؤں اور لیڈروں کے طرزِ بیان کو بھی دیکھتے ہیں کہ وہ مختلف حالات میں کس انداز سے گفتگو کرتے ہیں۔ ایسے وقت میں لوگ عموماً اپنے گزرے دکھوں اور ظلم و ستم کا ذکر کرتے ہیں۔ مگر نبیِ کریم ﷺ نے ایسا نہیں فرمایا۔ آپ ﷺ نے اپنے خطاب میں ماضی کے کسی رنج یا دکھ کا ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! نیک بات کہو، اچھی گفتگو کرو، نرمی اختیار کرو، صدقہ و خیرات کرو، اور آخرت کو یاد رکھو۔
یہ ہے رسولِ اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا حقیقی رنگ۔ اگر ہمارے گفتار و کردار میں یہ روشنی، یہ نرمی اور یہ اخلاق نہیں جھلکتے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے ابھی تک آقا ﷺ سے حقیقی تعلق قائم ہی نہیں کیا۔
حاصلِ کلام
رسولِ اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایمان کا جوہر اور دین کا حُسن، غصے، انتقام یا شکوے میں نہیں بلکہ نرمی، خلوص اور اخلاقِ عالیہ میں پوشیدہ ہے۔ آپ ﷺ نے مکہ کے ظلم و ستم، طائف کی اذیت اور تیرہ برس کی سختیوں کے باوجود مدینہ منورہ پہنچ کر ماضی کی تلخیوں کا ذکر نہیں کیا، بلکہ محبت، سخاوت اور خیر خواہی کا پیغام دیا۔ آپ ﷺ نے دلوں کو جوڑا، نفرتوں کو مٹایا اور انسانیت کو اخلاق کی بنیاد پر متحد کیا۔ یہی تعلیم آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے کہ اگر ہم اپنے قول و فعل میں حلم، رحم، نرمی اور خیر کا رنگ پیدا کر لیں تو ہمارا باطن بھی مدینہ کی طرح منور ہو جائے۔ دراصل، اخلاقِ محمدی ﷺ ہی وہ روحانی آئینہ ہے جس میں امت اپنی اصل پہچان اور ایمان کی سچائی کو دیکھ سکتی ہے۔


















تبصرہ