مسلمانوں نے علم، فکر اور تحقیق کا وہ دَور شروع کیا، جس کی بنیاد پر آج کی سائنسی دنیا کھڑی ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
آج دنیا کی ہر یونیورسٹی جس نظامِ تعلیم پر فخر کرتی ہے، اس کی جڑیں جامعہ قراویین کی علمی روایت میں پیوست ہیں: صدر منہاج القرآن
تمام قدیم و جدید علوم و فنون کے اصل بانی اور رہنما مسلمان اہلِ علم ہیں: صدر منہاج القرآن
مسلمانوں نے جب علم و حکمت کے دروازے کھولے تو انسانیت ایک نئے فکری و سائنسی عہد میں داخل ہوئی۔ انہوں نے صرف مذہب ہی نہیں بلکہ فکر، فلسفہ، ریاضی، طب، فلکیات، کیمیا اور طبیعیات جیسے ہر میدان میں تحقیق کے ایسے چراغ جلائے جن کی روشنی آج کی سائنسی دنیا کی بنیاد بنی۔ بغداد سے قرطبہ تک، قراویین سے بیت الحکمہ تک، ہر جگہ مسلمان مفکرین نے علم کو نئی سمت دی اور انسان کو کائنات کی گہرائیوں میں جھانکنے کا حوصلہ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام قدیم و جدید علوم و فنون کے اصل بانی اور رہنما مسلمان اہلِ علم ہی تھے جنہوں نے دنیا کو علم کے آفاقی پیغام سے روشناس کرایا۔
قراویین: دنیا کی پہلی یونیورسٹی اور ایک خاتون کا علمی کارنامہ:
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے تعلیمی ادارہ جات کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: اگر ہم تعلیمی اداروں اور اسکولز کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب دنیا میں ’’یونیورسٹی‘‘ کا تصور بھی موجود نہیں تھا، اُس وقت تقریباً تیرہ سو سال پہلے مسلم دنیا نے پوری انسانیت کو ایک عظیم یونیورسٹی ’’قراویّین‘‘ عطا کی۔
یہ نہ صرف دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی تھی بلکہ حیرت انگیز طور پر اس کی بانی ایک خاتون تھی، جس نے مراکش (مغرب) کے شہر میں اسے قائم کیا۔ یہی جامعہ القراویین آج تک علم و حکمت کا چراغ جلائے ہوئے ہے، جہاں سے صدیوں سے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اس کا نظامِ تعلیم آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسی عالمی جامعات کے لیے نمونہ بنا۔
اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے تقریباً ایک ہزار سال پہلے ’’جامعہ الازہر‘‘ جیسے عظیم تعلیمی ادارہ وجود میں آیا، جو آج بھی علم و دین کی خدمت کر رہا ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ حاضرینِ گرامی! گریجویشن کے دن ہم جو مخصوص ’’کیپ‘‘ پہنتے ہیں، یہ روایت بھی دراصل مسلمانوں کی عطا کردہ ہے۔ سب سے پہلے یہی لباس مسلم دنیا کی قدیم جامعات میں استعمال ہوتا تھا۔
اسی طرح آج جن اصولوں پر دنیا کی یونیورسٹیز/جامعات چل رہی ہیں، جیسے پورے تعلیمی سال کا نظام، باقاعدہ کلاسز، امتحانات میں شمولیت، اسائنمنٹس کی تیاری، یہ تمام طریقے سب سے پہلے جامعہ قراویین میں رائج تھے۔ یعنی جدید تعلیمی نظام کی بنیاد بھی مسلمانوں کے علمی ورثے سے ہی اُبھری۔ آج دنیا کی ہر یونیورسٹی جس نظامِ تعلیم پر فخر کرتی ہے، اس کی جڑیں جامعہ قراویین کی علمی روایت میں پیوست ہیں۔
تمام جدید و قدیم علوم وفنون کے بانی مسلمان ہیں:
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ: تیرہ سو سال پہلے مسلمانوں نے وہ اکیڈمک ماڈل متعارف کرایا جس پر آج بھی دنیا کی یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ یہ علم و دانش کی وہ بلند ترین سطح تھی جس نے انسانیت کی فکری سمت متعین کی۔ بعد ازاں عباسی دَور میں مسلمانوں نے بغداد اور عراق کی سرزمین پر ’’بیت الحکمہ‘‘(House of Wisdom) جیسے عظیم علمی ادارے قائم کیے، جو واقعی علم کے انمول خزانے تھے۔
یہاں دنیا بھر کے ذہین ترین مفکرین، سائنس دان اور محقق جمع کیے گئے۔ مسلمانوں نے یونانی، رومی اور دیگر تہذیبوں کے تمام علمی متون کو عربی زبان میں منتقل کروایا، تاکہ علم سب کے لیے قابلِ فہم بن جائے۔ بیت الحکمہ میں مختلف شعبہ جات قائم کیے گئے، جہاں اہلِ علم کو آزادیِ فکر کے ساتھ تحقیق اور مطالعے کی سہولت دی گئی۔ یہی ادارہ تھا جس نے امتِ مسلمہ کو ایک نئی فکری و سائنسی جہت عطا کی، اور جس کے اثرات آج تک دنیا محسوس کر رہی ہے۔ مسلمانوں نے علم، فکر اور تحقیق کا وہ دَور شروع کیا، جس کی بنیاد پر آج کی سائنسی دنیا کھڑی ہے۔
حاصلِ کلام:
یقیناً دنیا کے علمی و سائنسی سفر کی اصل بنیاد مسلمان مفکرین اور محققین نے رکھی۔ انہی کی بدولت انسان نے مشاہدے، تجربے اور عقل کی راہوں پر چلنا سیکھا۔ مسلمانوں نے علم کو عبادت کا درجہ دے کر تحقیق کو مقدس فریضہ بنایا اور ہر فن میں نئی جہتوں کو جنم دیا۔ آج کی سائنسی ترقی، فکری آزادی اور تعلیمی نظام دراصل اُنہی کی جدوجہد اور بصیرت کا تسلسل ہے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ مسلمانوں نے علم کو نظریے سے حقیقت میں بدل دیا اور انسانیت کو سوچنے کا سلیقہ عطا کیا۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)


















تبصرہ