توبہ کرنا مؤمنین کی صفت ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

عام لوگوں کی توبہ گناہ کو چھوڑ دینا ہے جبکہ صالحین کی توبہ یہ ہے وہ اپنی زندگی سے غفلت کو چھوڑ دیں: شیخ الاسلام کا خطاب

توبہ مؤمن کی پہچان اور اہلِ ایمان کا شرف ہے، کیونکہ توبہ دراصل بندے کی اپنے رب کی طرف واپسی ہے۔ یہ وہ نورانی دروازہ ہے جو ہر وقت کھلا رہتا ہے، چاہے انسان کتنی ہی دور نکل جائے۔ توبہ کی کئی اقسام ہیں: (۱) عام لوگوں کی توبہ گناہوں سے باز آنا ہے، (۲) صالحین کی توبہ دل کی غفلت سے جاگ اٹھنا ہے۔ توبہ بندگی کی تجدید ہے، روح کی طہارت ہے، اور ایمان کی تجلی کو دوبارہ روشن کرنے کا عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اہلِ ایمان کو فرمایا: ’’تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا‘‘ یعنی ایسی خالص توبہ کرو جو تمہیں رب کے قریب کر دے اور دنیا کی تاریکیوں سے نکال کر معرفت کے نور میں داخل کر دے۔

توبہ کی اَقسام

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: توبہ کی تین قسمیں ہیں۔ توبہ کی ابتدا عام توبہ سے ہوتی ہے، درمیانی درجہ اِنابت ہے، اور سب سے اعلیٰ درجہ اَوبہ کہلاتا ہے۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان گناہوں سے اس لیے توبہ کرے کہ وہ آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے، یعنی گناہوں پر نادم ہو کر عذاب سے بچنے کے لیے اللہ سے معافی مانگے، یہ توبہ ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان گناہ اس لیے چھوڑ دے کہ وہ اللہ کی رضا اور جنت کا طلبگار ہے، یعنی ثواب اور اجر پانے کے لیے گناہوں سے بچتا ہے، یہ توبۂ اِنابت ہے۔

تیسرا اور سب سے اعلیٰ درجہ اَوبہ ہے، جس میں بندہ نہ عذاب کے خوف سے توبہ کرتا ہے، نہ جنت کے لالچ میں، بلکہ صرف اور صرف اللہ سے حیاء کرتے ہوئے گناہ چھوڑ دیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے: میرے رب نے میری نافرمانی کے باوجود میرا رزق بند نہیں کیا، میری خطاؤں کے باوجود مجھے صحت عطا کی، اور اپنی رحمت و کرم کے دروازے میرے لیے ہمیشہ کھلے رکھے۔پس وہ اپنی گنہگاری پر نہیں، بلکہ رب کی ستّاری اور غفّاری پر شرمندہ ہو کر تائب ہوتا ہے۔ یہی توبہ کا سب سے بلند اور خالص درجہ ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مزید کہا کہ: توبہ کرنا مؤمنین کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ) [النور:31] ’’یعنی تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو!‘‘

اِنابت اولیاء و صالحین کی توبہ ہے، اور قیامت کے دن اُس شخص کا عالَم منفرد ہوگا جو اِنابت (رجوع) والا دل لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس آئے گا اور جس کا دِل اللہ تعالیٰ کی طرف جھکا ہوا ہوگا۔

اَوْبَہ: یہ انبیاء و مرسلین کی صفت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ) [ص:30] ’’وہ کیا خوب بندہ تھا بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ بندہ ہر وقت میرے کرم کے حیاء میں رہنے والا تھا، میری عنایات کا دھیان رکھنے والا تھا۔

عام لوگوں اور خاص لوگوں کی توبہ میں فرق

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عام اور خاص لوگوں کی توبہ کے متعلق مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: حضرت ذو النون مصریؓ فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کی توبہ یہ ہے کہ وہ گناہ چھوڑ دیں، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت چھوڑ دیں، مگر خاص لوگوں کی توبہ اس سے بلند ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی سے غفلت چھوڑ دیں اور اپنی ساری زندگی کو اللہ تعالیٰ کی طاعت بنا دیں۔

حضرت علی بن محمد التمیمی کہتے ہیں کہ توبہ کے تین درجے ہیں۔ توبہ کا ایک درجہ یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام گناہوں کو چھوڑ دے، چاہے وہ بڑے گناہ ہوں یا چھوٹے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے قریب ہونا چاہے تو اسے توبہ کے ایک اعلیٰ مقام تک پہنچنا ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ہر غفلت کو بھی ترک کر دے۔

ایسا بندہ ہر وقت اللہ کی بندگی کے لیے تیار رہتا ہے، جب نماز کا وقت آئے تو نماز کے لیے مستعد ہو، روزے کا وقت آئے تو روزے کے لیے آمادہ ہو، حرام سے بچنے کے لیے تیار ہو، حلال کو اختیار کرنے میں محتاط ہو، اللہ کے احکام کو بجا لانے میں سرگرم ہو، اور جن باتوں سے اللہ نے منع فرمایا ہے اُن سے بچنے میں مستعد رہے۔ عبادات، معاملات اور اخلاق، ہر پہلو میں وہ اپنے رب کے حکم کے لیے تیار کھڑا ہو۔ ایسی توبہ کرنے والا بندہ وہ ہوتا ہے جو نیکی کرتا ہے مگر اپنی نیکی پر فخر نہیں کرتا، بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ ہر نیکی بھی اللہ کی توفیق سے ہوئی ہے، اپنی طاقت سے نہیں۔

کسی پر احسان کرو تو وہ احسان تمہیں نظر نہ آئے، کسی کے ساتھ بھلائی کرو تو اپنی بھلائی کا احساس دل میں نہ رہے، عبادت کرو تو اپنی عبادت پر نظر نہ جائے۔ جس انسان کو اپنی نیکی اور عبادت نظر آنے لگتی ہے، وہ دراصل اللہ کی نگاہ میں گِر جاتا ہے، کیونکہ اس کے دل میں تکبر آ جاتا ہے۔ لیکن جو بندہ نیکی اور عبادت کر کے بھی اپنے عمل کو کچھ نہیں سمجھتا، بلکہ شرمندہ اور عاجز رہتا ہے، وہی بندہ اللہ کے ہاں بلند درجہ پاتا ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top