شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ملک بھر کے علماء و محققین اور مختلف یونیورسٹیز کے PhD و MPhil اسکالرز کے ساتھ سوال و جواب کی خصوصی نشست سے خطاب

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بعض فقہاء نے آیتِ کریمہ ﴿وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ﴾ میں ’’مِن‘‘ کی وجہ سے اس فریضے کو فرضِ کفایہ سمجھا، مگر تحقیق کے مطابق یہ ’’مِن‘‘ بیانیہ ہے اور پوری امت اس حکم میں شامل ہے۔ اگر ارشادِ باری کو کفایہ سمجھ لیا جائے تو پھر ایمان باللہ بھی کفایہ قرار پائے گا، جو کسی طور درست نہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے حدیثِ نبوی ﷺ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا... کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منکر کے ازالے کا حکم ہر فرد پر عملی جدوجہد اور اخلاقی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ اسی طرح ارشادِ مصطفی ﷺ بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً اس بات کی دلیل ہے کہ ہر مسلمان کو دعوتِ خیر میں حصہ لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آج جب معاشرہ منکرات کے سیلاب میں ہے، تو یہ فریضہ پہلے سے زیادہ ضروری ہو چکا ہے۔ اگر امت نے اسے ترک کیا تو احادیث کے مطابق اللہ تعالیٰ ظالم حکمران مسلط کر دے گا اور دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔
سورۃ فصّلت کی آیت ﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللّٰهِ﴾ کی روشنی میں شیخ الاسلام نے داعی کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا کہ بہترین انسان وہ ہے جو اللہ کی طرف بلائے، خود بھی نیک عمل کرے اور عمل و قول میں تضاد نہ رکھے۔ انہوں نے کہا کہ نرم اسلوب، صبر، برداشت اور ضبطِ نفس داعی کی بنیادی صفات ہیں جبکہ شیطان انسان کو غضب و ردِّعمل پر اکساتا ہے، اس سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرد یہ عزم کرے کہ وہ داعی ہے اور اپنے گھر، خاندان اور معاشرے کی اصلاح میں کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ دعوتِ دین میں حصہ لینا نہ صرف فرضِ عین ہے بلکہ امت کی بقا اور روحانی و اخلاقی ترقی کا واحد راستہ ہے۔
اس علمی نشست میں صدر منہاجینز شاہد لطیف قادری، حاجی امین الحق القادری، ڈاکٹر ممتاز الحسن باروی، ڈاکٹر فاروق رانا، عین الحق بغدادی، حاجی محمد ارشد (اچھی بھائی)، افضل سعید، جواد حامد، مظہر محمود علوی، عبدالستار منہاجین، ڈاکٹر حافظ ظہیر احمد الاسنادی، شیخ فرحان عزیز، فیض عالم قادری، حاجی محمد ارشد، محمد آفتاب خان، عمر دراز سمیت ملک بھر کے مشائخ و علماء اور منہاجینز اسکالرز کی بڑی تعداد شریک تھی۔

































تبصرہ