بچوں کی اَصل تربیت والدین کی زبان سے نہیں بلکہ اُن کے روزمرہ کردار، رویّے اور گھر کے ماحول سے ہوتی ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
بچے کی تربیت کا آغاز محض نصیحت یا سمجھانے سے نہیں بلکہ گھر کے ماحول، والدین کے باہمی رویّے اور گفتگو کے انداز بچے کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں: صدر منہاج القرآن
آج کا بچہ والدین سے زیادہ اسکرین پر بھروسہ کرتا ہے، اسی لیے اس کی رہنمائی اور نگرانی پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گئی ہے: صدر منہاج القرآن
والدین اپنی اولاد کے لیے سب سے مؤثر اور اوّلین رول ماڈل ہوتے ہیں، اُن کی شخصیت، کردار اور روزمرہ کی عادات بچے کی پوری زندگی کا زاویہ متعیّن کر دیتی ہیں۔ تربیت کا آغاز محض نصیحت یا سمجھانے سے نہیں ہوتا، بلکہ گھر کے ماحول، والدین کے باہمی رویّے، گفتگو کے انداز، عبادات کی پابندی، اور چھوٹی چھوٹی اخلاقی حرکات سے ہوتا ہے جو بچے کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑتی ہیں۔ جب والدین سچائی، نرمی، دیانت، برداشت اور شکر گزاری کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کرتے ہیں تو بچہ انہی اَقدار کو اپنی فطرت کا حصہ بنا لیتا ہے۔ اسی طرح وقت دینا، سنجیدگی سے بات سننا، مثبت سرگرمیوں کے مواقع فراہم کرنا، اور ڈیجیٹل دنیا کے شتر بے مہار اَثرات کو حکمت سے کنٹرول کرنا تربیت کے لازمی ستون ہیں۔ یوں والدین اگر خود وہ بن جائیں جو وہ اپنی اولاد میں دیکھنا چاہتے ہیں، تو کردار، اخلاق اور ایمان کی مستحکم بنیاد خود بخود اگلی نسل میں منتقل ہو جاتی ہے۔
گھر کا ماحول: بچے کی تربیت کا خاموش اُستاد:
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ’’والدین اپنی اولاد کے لیے رول ماڈل کیسے بن سکتے ہیں‘‘ سے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
تربیتِ اولاد صرف باتیں سمجھانے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یاد رکھیں، بچے کے ارد گرد کا پورا ماحول، گھر میں صبح و شام جو کچھ ہوتا ہے، وہ سب اُس کی سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے اور اُس کی شخصیت میں نئی چیزیں شامل کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر والدین ایک دوسرے سے چیخ کر بات کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کی اولاد نرم مزاج والی بن جائے، تو یہ ممکن نہیں ہوگا؛ کیونکہ بچے نے گھر میں بلند آواز اور چیخ کر جواب دینا ہی سیکھا ہے، اس لیے وہ بڑا ہو کر نرمی اختیار نہیں کرے گا۔ اگر گھر میں گالی گلوچ ہو تو بچہ بھی وہی سیکھے گا۔ اسی طرح اگر پورا گھرانہ دن بھر ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا ڈرامے دیکھتا ہے تو بچہ بھی وہی مناظر دیکھے گا۔ گالی گلوچ، چیخ و پکار، الزام تراشی اور سازشیں یہ تمام چیزیں چھوٹی عمر میں ہی بچہ اپنے ذہن میں محفوظ کرتا چلا جاتا ہے۔
ڈیجیٹل دور میں بچوں کی تربیت کا چیلنج:
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: ہم اکثر صرف بچوں کے نفسیاتی پہلوؤں پر بات کرتے ہیں، لیکن اس ماحول کی اصلاح کا ذکر نہیں کرتے جو درحقیقت بچے کی فطرت اور شخصیت کو تراشتا ہے۔ اس اہم پہلو پر توجہ دلانا اگلی نسلوں کے لیے بے حد ضروری ہے۔ آج کی دنیا میں میگزین، کتابیں، اور خاص طور پر آئی پیڈ اور سکرینز بچوں کی سب سے بڑی استاد بن چکی ہیں۔ بچہ والدین کی نسبت آئی پیڈ، یوٹیوب اور مختلف پروگراموں پر زیادہ بھروسا کرتا ہے اور وہیں سے زیادہ معلومات حاصل کرتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ان تمام مراحل میں بچے کی رہنمائی، نگرانی اور صحیح تربیت کی جائے۔
حاصلِ کلام:
دورِ جدید میں اَولاد کی حقیقی تربیت زبان کی نصیحتوں سے نہیں بلکہ والدین کے کردار، گھر کے ماحول اور روزمرہ رویّوں سے جنم لیتی ہے۔ بچے کی شخصیت اسی ماحول میں ڈھلتی ہے جسے وہ روز دیکھتا، سنتا اور محسوس کرتا ہے، چاہے وہ والدین کی باہمی گفتگو ہو، گھر کا امن و سکون ہو یا اسکرین پر گھنٹوں چلنے والے مناظر۔ جب والدین اپنی عملی زندگی میں اخلاق، نرمی، بردباری اور سچائی کو اختیار کرتے ہیں، تو یہی خوبیاں غیر محسوس طور پر اولاد میں منتقل ہوتی ہیں۔ جب ڈیجیٹل دنیا بچوں کے اعتماد کا سب سے بڑا مرکز بن چکی ہو، تو محض تنبیہ کافی نہیں رہتی؛ بلکہ ان کے ماحول کی اصلاح، ان کی رہنمائی اور مسلسل نگرانی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ آنے والی نسلوں کی تعمیر اسی وقت ممکن ہے جب والدین خود وہ معیار اختیار کریں جو وہ اپنی اولاد میں دیکھنا چاہتے ہیں، تاکہ گھر علم، کردار اور حسنِ تربیت کا سرچشمہ بن سکے۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)


















تبصرہ