اللہ رب العزت نے والدین کے لیے آواز کے بغیر بھی ہلکی سی بے اَدبی کو حرام قرار دیا ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
بڑھاپے میں والدین کے ساتھ نرمی دراصل اپنے ہی بچپن کی خدمت کا بدلہ ہے: شیخ الاسلام کا خطاب
والدین کے ساتھ بدتہذیبی سے پیش آنا محض اَخلاقی رویّے کی خرابی نہیں، بلکہ دین و انسانیت دونوں کے معیار سے گرا ہوا عمل ہے۔ قرآنِ مجید نے والدین کے احترام کو اتنی عظمت بخشی کہ اُن کے سامنے ’’اُف‘‘ کہنا تک منع فرما دیا۔ یعنی وہ ہلکی ترین ناراضی یا بے ادبی کا اظہار بھی قابلِ قبول نہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کے سامنے آواز، لہجہ، انداز، چہرے کے تاثرات اور گفتگو کے ہر پہلو میں مکمل نرمی، عاجزی، شکرگزاری اور ادب اختیار کرے۔ والدین کے ساتھ تلخی، چڑچڑاہٹ، ناراضگی یا اَہمیّت جتانے والا کوئی بھی رویّہ نہ صرف اُن کے دل کو دُکھاتا ہے بلکہ انسان کے کردار، تربیت اور ایمان کی کمزوری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اولاد اپنے والدین کے سامنے حُسنِ اخلاق کی بلند ترین چوٹی پر کھڑی ہو، وہاں جہاں نہ ’’ اُف‘‘ کی گنجائش ہو، نہ اذیت کی، نہ بے ادبی کی۔
والدین کو اُف نہ کہنے سے کیا مراد ہے؟
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: والدین کو اُف کہنے سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ کے یہ علم میں تھا کہ جب بڑھاپا آ جاتا ہے تو وہ لمحات آئیں گے جس میں اُف کہنی پڑتی ہے، جب بندے کو پریشانی آتی ہے تو وہ اُکتا جاتا ہے، تنگ آ جاتا ہے، تنگ آ کے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے، والدین کے مزاج کے مطابق بندے کے مزاج اور طبیعت میں ایسی چیزیں داخل ہو جاتی ہیں کہ انسان کچھ کہہ سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کہ اپنے والدین کو اُف بھی نہ کہو۔
لفظ ’’اُف‘‘ کا معنی و مفہوم:
شیخ الاسلام نے توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: اَب اف کیا ہے؟ یہ ایک چھوٹا سا لفظ ہے جس کا کوئی ایک خاص معنٰی بھی نہیں ہے اور اس میں آواز بھی نہیں ہے، ایک معمولی سا لفظ ہے۔ لفظ اُف کا معنی عربی زبان میں لغوی اعتبار سے یوں سمجھ لیں کہ کم سے کم نافرمانی یا معمولی سے معمولی نافرمانی جو ایک ذرہ کے برابر بھی اگر ہو سکتی ہے تو یہ اُف میں شامل ہے۔ اس کا اصل معنی یہ ہے کہ اگر آپ کے کپڑوں پر اگر کوئی تھوڑی سی گرد لگ جائے اور آپ کپڑے کو صاف کرنے کے لیے اپنے کپڑوں کو جھاڑ دیں تاکہ گرد اُتر جائے اس کو اُف کہتے ہیں۔
یعنی اُف ایک ایسا لفظ ہے کہ جس کی آواز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے فرمایا: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍ۔ عربی میں اف کہتے ہیں اور اسی پوزیشن کو فارسی میں ’’اَح‘‘ کہتے ہیں اور اردو میں ’’اوہ‘‘کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے والدین کے لیے آواز کے بغیر بھی ہلکی سی بے ادبی کو حرام قرار دیا ہے اور اِس سے منع کر دیا۔
یعنی آپ والدین کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتے کہ جس میں آواز بھی نہ نکلے۔ اُف ایک ایسا لفظ ہے جس میں انسان کہتا ہی کچھ نہیں مگر دیکھنے والے کو محسوس ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ وہ بھی حرام ہے۔
لفظ اُف کی تین اَقسام:
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مزید بیان کیا ہے کہ لفظ اُف کی تین اقسام ہیں: (1) اُف لفظی۔ (2) اُف فعلی (3) اُف نظری
(1) لفظی اُف جب آپ نے اُف، اُح اور اُوہ کہہ دیا، اتنا کہنے سے ماں باپ کو بڑھاپے میں خیال آئے گا کہ شاید ہم کچھ غلط کر بیٹھے ہیں۔ شاید میں نے کوئی نا مناسب بات کی ہے جو میرے بیٹے اور بیٹی نے مجھے اُف کہا ہے۔ اِس سے اُن کا دِل دُکھ جائے گا۔ اللہ پاک نے فرمایا: اتنی رنجیدگی بھی اپنے والدین کے دِل کو نہ پہنچاؤ۔ اتنا ملال بھی اُن کو نہ پہنچاؤ کہ وہ حیرت زدہ ہو جائیں کہ میں کیا کر بیٹھا ہوں کہ میرے بیٹی یا بیٹے نے مجھے اُف کہا ہے۔
(2) اُف فعلی یہ ہے کہ: کوئی ایسی حرکت یا ایسی موومنٹ جس میں گستاخی کا پیغام چلا جائے وہ بھی نہیں کر سکتے۔
(3) اُف نظری یہ ہے کہ آپ نے زبان سے کچھ نہیں کہا مگر وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے بس یہ اُف نظری ہو گیا، rudeness ہو گئی، یعنی (Rudeness of behavior) رویے کی بدتمیزی، جس سے بد تمیزی یا بد تہذیبی ظاہر ہو جائے یا ایسی نظر سے دیکھا جس سے حقارت ظاہر ہو یا غصے کی نظر سے دیکھا یا نافرمانی کی نظر سے دیکھا، یعنی رویے میں کسی طرح کی Rudeness والدین کے سامنے حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق کو ہر پہلو سے واضح کر دیا اور اولاد کو خبردار فرمایا ہے کہ جن والدین نے تمہارے بچپن میں تمہاری ہر ضرورت پوری کی، تمہاری غلاظتیں صاف کیں، تمہیں نہلایا، سنبھالا اور بے انتہا محبت سے پالا، اُن کے ساتھ بدتمیزی کرنا ہرگز جائز نہیں۔ تمہاری ماں نے تمہارے پیشاب اور گندگی کی صفائی کرتے ہوئے کبھی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا، حالانکہ وہ چاہتی تو کہہ سکتی تھیں کہ ’’کتنی بدبو ہے‘‘۔ مگر ماں نے کبھی ایسا نہیں کہا۔ اللہ تعالیٰ اولاد کو اسی احسان کی یاد دلانا چاہتا ہے کہ اب جب وہ والدین بڑھاپے میں کمزور ہو گئے ہیں تو تم اُنہیں ’’اُف‘‘ تک نہیں کہہ سکتے۔ ان کے ساتھ سختی اور بدتمیزی وہی شخص کرتا ہے جو اپنا بچپن بھول بیٹھا ہو۔
حاصلِ کلام:
والدین کے سامنے ادب، انکساری اور نرم خوئی صرف اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ ایمانی ذمہ داری ہے۔ جن ماں باپ نے ہماری پیدائش سے جوانی تک اپنی راحتیں قربان کرکے ہمیں سہارا دیا، جنہوں نے ہماری غلاظتیں صاف کیں، ہمارے رونے پر راتیں جاگ کر کاٹیں اور کبھی اپنی تکلیف کا شکوہ نہ کیا، اُن کے سامنے معمولی ناراضی تک کا اظہار انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’’اُف‘‘ جیسے بے آواز اشارے کو بھی حرام قرار دے کر بتا دیا کہ والدین کے دلوں کو ٹھیس پہنچانے والی کوئی بھی بات، حرکت یا نظر خواہ بغیر آواز کے ہو، ناقابلِ قبول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو اپنے والدین کے بڑھاپے میں اُن کے ساتھ شفقت اور لحاظ سے پیش آتا ہے، وہ دراصل اپنی ہی پرورش کے دنوں کی وفا ادا کرتا ہے۔ انہی لمحوں میں انسان کا اصل کردار اور اس کے ایمان کی گہرائی ظاہر ہوتی ہے۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)


















تبصرہ