جب دل کی معرفت اور عقل کا علم ایک شخصیت میں جمع ہو جائے تو وہ محض اُستاد نہیں رہتا بلکہ زمانے کا رہبر بن جاتا ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

اللہ رب العزت اولیاء اللہ کے دِل پر خیر کی بات اِلقاء کر دیتا ہے: صدر منہاج القرآن
کتابوں میں ڈوبے ہوئے ہزاروں پروفیسر وہ مقام نہیں پا سکتے جو ایک صاحبِ معرفت دل والے کو ایک لمحے کی روحانی بصیرت عطا کر دیتی ہے: صدر منہاج القرآن
دِل حصولِ علم کا سب سے اہم ترین ذریعہ ہے: صدر منہاج القرآن

حصولِ علم کے ذرائع صرف آنکھ اور کان تک محدود نہیں، بلکہ قرآن کے مطابق سب سے گہرا اور فیصلہ کن ذریعہ وہ دل ہے جسے اللہ بصیرت اور معرفت عطا کر دے۔ جب کسی شخصیت میں دل کی یہ الہامی روشنی اور عقل کی محققانہ گہرائی اکٹھی ہو جائے تو وہ عالم محض ایک پڑھانے والا استاد نہیں رہتا بلکہ زمانے کا رہبر بن جاتا ہے۔ ایسے لوگ علم کو صرف کتابوں سے نہیں لیتے بلکہ دل کی آنکھ سے حقیقت کو پہچانتے ہیں اور پھر اسے تحقیق، منطق، استدلال اور دلیل کے سانچے میں ڈھال کر دنیا کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ یہی وہ کامل امتزاج ہے جو تاریخ میں امام غزالی، شاہ ولی اللہ اور شیخ الاسلام حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رضی اللہ عنہ اور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری جیسے نابغہ روزگار رہنماؤں کو جنم دیتا ہے؛ وہ جو خود بھی روشن ہوتے ہیں اور دوسروں کے راستے بھی روشن کر جاتے ہیں۔

حصولِ علم کے ذرائع:

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے حصولِ علم کے ذرائع کے متعلق بیان کرتے ہوئے کہا کہ: قرآنِ مجید سورة بنی اسرائیل میں علم اور حصولِ علم کے تین ذرائع بیان فرماتا ہے۔ جس میں ایک ذریعہ آنکھ، دوسرا ذریعہ کان اور تیسرا ذریعہ دل بیان فرماتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنکھ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ علم کا ذریعہ ہے۔ انسان دیکھتا ہے اور پڑھتا ہے۔ کان بھی سمجھ میں آتا ہے، کہ استاد کا لیکچر سنتے ہیں، کوئی بھی چیز سنتے ہیں تو علم حاصل ہوتا ہے۔ دل علم کا ذریعہ کیسے ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ حاضرین گرامی! قرآنِ مجید نے دل کو علم کے سب سے اہم ذریعے کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے سے پہلے ذرا غور کریں کہ دنیا میں علم کے تین بڑے طبقات پائے جاتے ہیں، جو خود بھی سیکھتے ہیں اور دوسروں تک علم پہنچاتے ہیں۔ پہلا طبقہ وہ ہے جو دینی علوم پڑھیں تو علماء کہلاتے ہیں، اور جدید علوم پڑھیں تو پروفیسرز کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ پوری زندگی کتابوں کے ساتھ گزار دیتے ہیں، مسلسل مطالعہ کرتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں اور ہزاروں طلبہ کو پڑھا چکے ہوتے ہیں، مگر آخر میں ایک عام سی زندگی گزار کر اِس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان کی ساری علمی مشقت کے باوجود وہ تاریخ میں ایسے بڑے مقام تک نہیں پہنچ پاتے جیسا کہ عظیم شخصیات کا ایک نام ہوتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں کوئی مسلم یونیورسٹی نمایاں نہیں، اور نہ ہی جدید سائنسز میں کوئی بڑا مسلم نام سامنے آ رہا ہے، نہ سیاسیات میں، نہ فزکس میں، نہ کیمسٹری میں۔ پروفیسرز تو ہر جگہ ہزاروں موجود ہیں، مگر تاریخ ساز لوگ پیدا نہیں ہو رہے۔ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کا ہے۔ ان کے پاس دل کی معرفت ہوتی ہے، وہ باطنی بصیرت کے ساتھ چلتے ہیں۔ جیسے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جنہیں اللہ نے روحانی فہم اور قلبی شعور عطا فرمایا۔

دل کی بصیرت اور تحقیق کا حسین امتزاج:

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ علم کا تیسرا اور سب سے گہرا ذریعہ دل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں اور اولیاء کے دلوں میں خیر کی بات ڈال دیتا ہے، اور وہ بغیر لمبی تحقیق کیے براہِ راست درست اور حتمی بات کر دیتے ہیں۔ اگر آپ اُن سے دلیل، منطق، تحقیق یا ریفرینسز پوچھیں گے تو وہ کچھ بھی نہیں بتائیں گے، لیکن ان کا نتیجہ ہمیشہ ٹھیک نکلتا ہے۔ اگر کوئی ان کی بات پر عمل کرے تو وہ سیدھے صحیح نتیجے تک پہنچ جاتا ہے۔ ان کے پاس نہ ڈیٹا ہوتا ہے، نہ انٹرویوز، نہ ریسرچ کی تکنیکیں، بس دل کی بصیرت ہوتی ہے، اور وہ برسوں تک درست رہنے والی بات کہہ دیتے ہیں۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جو محققین اور اسکالرز کا ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈگریاں حاصل کی ہوتی ہیں، تحقیق کا طریقہ جانتے ہیں، ریفرینسز بھی دیتے ہیں، مطالعہ بھی گہرا ہوتا ہے اور علمی زبان میں نتائج مرتب کرتے ہیں۔

لیکن سب سے اعلیٰ طبقہ وہ ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے دونوں خوبیوں کو جمع کر دیا ہوتا ہے۔ وہ دنیاوی تحقیق کے بھی ماہر ہوتے ہیں، اور اُن کے دل پر الہامی بصیرت کا دروازہ بھی کھلا ہوتا ہے۔ وہ علم کی دنیا میں بے مثال ہوتے ہیں۔ دل کی معرفت سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور پھر اسے ریسرچ کی زبان میں دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ علم وتحقیق اور معرفت کا حَسین امتزاج ہوتے ہیں، اور تاریخ انہی کو بڑا مان دیتی ہے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ شخصیت ہیں جن کے دل پر اللہ تعالیٰ نے معرفت اور بصیرت کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ ساتھ ہی وہ قانون کے پروفیسر بھی رہے ہیں اور علمی دنیا میں ایک اعلیٰ درجے کے Intellectual سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روحانی معرفت کو بھی سائنسی تحقیق، ریفرینسز، طریقۂ کار اور باقاعدہ Literature Review کی زبان میں سمجھاتے ہیں۔ اس امت میں ایسی کئی عظیم شخصیات گزری ہیں جن میں یہ دونوں پہلو یکجا تھے۔ امام غزالی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، اور حضرت بابا فرید گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی نفوس قدسیہ۔ ان ہستیوں کا مقام عام شخصیات سے کہیں بلند ہے؛ ان کے فیض سے آگے زمانے کے غوث، قطب اور اولیاء پروان چڑھتے ہیں۔ ایسے لوگ دراصل علم اور معرفت کے کامل امتزاج کا عملی نمونہ ہوتے ہیں۔

اب ان سب میں فرق کیا ہے؟ کہ وہ ساری زندگی کتابوں میں رہ کے کوئی بڑا کام نہیں کر پاتے۔ اور دوسرے وہ تھوڑا سیکھتے ہیں اور پھر دنیا کو زیادہ سکھاتے رہتے ہیں۔ اس میں فرق کیا ہے؟ فرق صرف اس دل کا ہے کہ جو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں بیان فرمایا کہ آنکھ اور کان کے سوا بھی کوئی ذریعہ ہے اور وہ ذریعہ دل ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top