حقیقی علم وہی ہوتا ہے جو دلوں کو بھی زندہ کر دے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

کچھ علماء اپنے علم سے گلی محلے کو روشن کرتے ہیں، کچھ شہر کو، اور کچھ اپنے علم سے اقوامِ عالَم کو منوّر کرتے ہیں: صدر منہاج القرآن

علم کی تین منازل اور اہلِ علم کے تین درجات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ علم کا مقام صرف کتابوں، الفاظ اور ظاہری معلومات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کی اصل روح دلوں کو روشن کرنا اور انسان کے باطن میں زندگی کی حرارت بھر دینا ہے۔ حقیقی علم وہی ہوتا ہے جو دلوں کو زندہ کر دے، انسان کی فکر کو جگا دے اور کردار میں ایسی روشنی پیدا کر دے جو صرف اسے ہی نہیں بلکہ اس کے گرد کے ماحول کو بھی منوّر کر دے۔ جو علم انسان کو رب کے قریب کر دے، اخلاق سنوار دے اور خلقِ خدا کے لیے نفع اور روشنی کا ذریعہ بن جائے، وہی علم اعلیٰ ترین منزل تک پہنچتا ہے، اور وہی اہلِ علم اپنی حقیقت میں چراغِ ہدایت بن جاتے ہیں۔

علم کی تین مَنازل اور اہلِ علم کے تین درجے:

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: میں کچھ روایات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، اُن روایات کی روشنی میں آپ ذرا غور کریں اور سوچیں کہ اللہ پاک نے ہمیں کتنی عظیم شخصیت کے ساتھ جوڑا ہے، ہمیں کتنی عظیم المرتبت شخصیت مجدّد المئۃ الحاضرۃ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیۃکے ساتھ منسلک کیا ہے۔ اہلِ اللہ میں سے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ علماء تین طرح کے ہوتے ہیں۔

پہلی قسم وہ ہے جو علم سے تو اپنی زندگی سنوار لیتے ہیں، مگر اُن کے علم کی روشنی دوسروں تک نہیں پہنچتی۔ وہ خود تو زندہ ہو جاتے ہیں، مگر اپنے علم سے کسی اور کے دل و دماغ کو زندگی نہیں دے پاتے۔

دوسری قسم وہ ہے جن کے علم سے لوگ زندگی پا لیتے ہیں لیکن وہ خود زندگی نہیں پا سکتے، ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جن کا علم علمِ نافع نہیں ہوتا، وہ خود اندھیروں میں چلے جاتے ہیں، وہ خود مردہ ہو جاتے ہیں کیونکہ اُن کے اندر ایمان کی لَو نہیں جلی ہوتی، اللہ پاک کی محبت کی لو نہیں جلتی، تاجدارِ کائنات ﷺ کی غلامی کی لو نہیں جلتی۔

تیسری اور اعلیٰ قسم وہ ہے کہ جو لوگ اپنے علم سے خود بھی زندہ ہوتے ہیں اور اپنے گرد و نواح کو بھی زندگی عطا کرتے ہیں۔ اِن کے درجات مختلف ہیں: کوئی اپنے محلے تک روشنی پھیلاتا ہے، کوئی پورے شہر کو زندہ کرتا ہے، کوئی اپنے ملک کو علم و معرفت سے جگمگاتا ہے، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے علم کی شمع پوری دنیا کے اندھیرے دور کر دیتی ہے اور اقوامِ عالَم اُن کے علم سے نئی زندگی پاتی ہیں۔ یعنی حقیقی علم وہی ہوتا ہے جو دلوں کو بھی زندہ کر دے؛ ورنہ وہ محض الفاظ کا بوجھ ہے۔ کچھ علماء اپنے علم سے گلی محلے کو جگاتے ہیں، کچھ شہر کو، اور کچھ اپنے علم سے اقوامِ عالَم کو منوّر کرتے ہیں۔

حقیقی علم اور مجدّد المئۃ الحاضرۃ:

پروفسیر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: میں جو نشانیاں بیان کر رہا ہوں، آپ اُن کو اپنے قائد مجدّد المئۃ الحاضرۃ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیۃ کی شخصیت میں تلاش کرتے جائیں، اور دیکھیے کہ اللہ پاک نے ہمیں کس عظیم مردِ قلندر کے ساتھ جوڑا ہے۔ وہ ایسی جلیل القدر علمی شخصیت ہیں جو خود بھی اپنے علم سے زندہ ہوئے، اُن کے افکار بھی زندہ اور روشن ہیں، ان کی زندگی کا ہر لمحہ علم و معرفت کی حرارت سے جگمگاتا ہے۔ وہ محض اپنی ذات کے لیے زندہ نہیں، بلکہ انہوں نے اہلیانِ پاکستان کو مختلف پہلوؤں سے نئی زندگی عطا کی، چاہے وہ شعورِ آئین ہو، شعورِ قرآن و سنت ہو، انسان کے حقوق کا احساس ہو، دردِ انسانیت کی آگہی ہو، یا مغرب کے فکری چیلنجز کے مقابلے میں اسلام کا صحیح تعارف۔

انہوں نے اپنی محنت اور اپنے علم کے ذریعے نہ جانے کتنے ہزاروں، لاکھوں دلوں کو زندگی بخشی۔وہ نوجوان جو دہشت گردی کے گرداب میں پھنس گئے تھے، جنہیں انتہا پسندی کی فکر نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا، اُن دلوں کو انہوں نے محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے پیغام سے دوبارہ جوڑا، انہیں اَمن، رواداری اور انسانیت کی طرف واپس لائے، اور حضور نبی اکرم ﷺ کی غلامی کی نعمت سے آشنا کیا۔

یہی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں اہلِ اللہ نے فرمایا کہ یہ تیسری قسم کے عالم ہیں: جو خود بھی زندہ ہیں، اور جو اُن سے جڑ جائے اُسے بھی زندہ کر دیتے ہیں؛ وہ کسی کو مردہ نہیں رہنے دیتے، بلکہ علم و محبت سے نئی روح عطا کرتے ہیں۔

حاصلِ کلام:

علم کی قدر و قیمت اُس وقت ظاہر ہوتی ہے جب وہ انسان کے اندر روشنی پیدا کرے اور معاشرے کو نئی زندگی عطا کرے۔ حقیقی اہلِ علم وہی ہوتے ہیں جن کا علم دلوں کو گرماتا ہے، فکر کو بیدار کرتا ہے اور کردار میں وہ حرارت پیدا کرتا ہے جس سے انسان اور اس کا ماحول سنور جاتا ہے۔ ایسی ہی زندہ اور زندگی بانٹنے والی قیادت اللہ تعالیٰ نے ہمیں مجدّد المئۃ الحاضرۃ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیۃ کی صورت میں عطا کی ہے، جن کا علم، کردار اور فکر صرف لفظوں تک محدود نہیں بلکہ سیکڑوں ہزاروں انسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی کا سبب بن چکا ہے۔ وہ عظیم قائد جنہوں نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑا، بھٹکے ہوئے ذہنوں کو مرکزِ مصطفیٰ ﷺ کی طرف مائل کیا، اور اس ملت کو شعور، امن اور انسانیت کی سمت دوبارہ متوجہ کیا۔ ایسے رجالِ علم وہی ہوتے ہیں جن کے وجود سے خود بھی زندگی پھوٹتی ہے اور جن سے وابستہ ہونے والے بھی نئی روح اور نئی سمت پاتے ہیں۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top