دائمی نیکی اور نجات کا سب سے بڑا ذریعہ علمِ نافع ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

علم وہ صدقۂ جاریہ ہے جو موت کے بعد بھی انسان کے لیے اَجر کا سبب بنتا رہتا ہے: شیخ الاسلام کا خطاب

علم نجاتِ آخرت کا ذریعہ تب بنتا ہے جب وہ محض زبان یا کتابوں تک محدود نہ رہے، بلکہ انسان کے کردار، نیت اور خدمتِ خلق میں ڈھل کر دوسروں کی زندگیاں سنوارنے لگے۔ ایسا علم دلوں کو روشن کرتا ہے، راہوں کو صاف کرتا ہے اور انسان کو خیر کا مینار بنا دیتا ہے۔ یہی وہ علم ہے جو صرف انسان کی زندگی میں نہیں بلکہ اُس کی موت کے بعد بھی ساتھ رہتا ہے؛ کیونکہ علم وہ دائمی نیکی ہے جو انسان کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی اُس کے نامۂ اعمال میں اُجالے بکھیرتی رہتی ہے۔ جب بندہ دوسروں کو خیر سکھاتا ہے، حق کی طرف بلاتا ہے اور نیکی کے چراغ جلاتا ہے، تو یہ روشنی وقت کے ساتھ بجھتی نہیں بلکہ بڑھتی رہتی ہے۔ یہی علمِ نافع اور خیر کا علم قیامت کے دن اس کے پلڑے کو بھاری کرے گا اور اُس کے لیے نجات کا سامان بن جائے گا۔

علم نجاتِ آخرت کا ذریعہ کب بنتا ہے؟

مجدّد المئۃ الحاضرۃ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیۃنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: جب قیامت کا دن آئے گا اور بندوں کا حساب شروع ہوگا، بعض لوگ ایسے ہوں گے جن کے اعمال کا وزن کرتے وقت ایک پلڑے میں نیکیاں رکھی جائیں گی اور دوسرے پلڑے میں گناہ۔ جب گناہوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا تو وہ شخص اپنا انجام دیکھ کر مایوس ہو جائے گا، فَظَنَّ أَنَّهَا النَّار: یعنی اب اُسے یقین ہو جائے گا ’’کبھی ظن کا لفظ یقین کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے‘‘ یعنی اَب اُسے اب یقین ہو جائے گا کہ اب میں بچ نہیں سکتا، میرا معاملہ ختم ہو گیا، اور میرے لیے دوزخ ہی کا فیصلہ ہونے والا ہے۔

جَاءَ شَيْءٌ مِثْلُ السَّحَابِ حَتَّى يَقَعَ مِنْ حَسَنَاتِهِ۔

(ابن القیم، مفتاح دار السعادۃ، ج1، ص 176)

اچانک ایک چیز بادل کی طرح نمودار ہوگی اور فرشتے اسے اُس شخص کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیں گے، جس سے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔ پھر اُس سے پوچھا جائے گا: فَیُقَالُ لَہُ: أَ تَعرِف ھَذٰا مِن عَمَلِک؟ کیا تم جانتے ہو کہ یہ جو تمہارے پلڑے میں رکھا گیا ہے، جس نے تمہاری نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کر دیا، یہ تمہارے اعمال میں سے ہے اور یہ کوئی بیرونی چیز نہیں ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ یہ تمہارا کون سا عمل ہے؟ فَیَقُولُ: لَا۔ وہ کہے گا نہیں، مجھے تو نہیں معلوم کہ یہ میرا کون سا عمل ہے۔ فَیُقَالُ ھَذَا مَا عَلَّمْتَ النَّاسَ مِنَ الخَیر وعُمِل بِہ مِن بَعدِک۔ تو اُسے کہا جائے گا کہ:

یہ وہ خیر کا علم ہے جو تم نے لوگوں کو سکھایا تھا اور تیرے بعد لوگوں نے اُس پر عمل کیا تھا۔ یہ وہ نیکی ہے جو تم نے زندگی بھر لوگوں کو سکھائی، یہ وہ خیر ہے جس کی تعلیم تم دیتے رہے۔ تم نے دین کی باتیں سکھائیں، لوگوں کو سیدھا راستہ دکھایا، اور تمہارے بعد بھی لوگ تمہاری سکھائی ہوئی نیکی پر عمل کرتے رہے۔ یہی وہ علمِ خیر ہے جس کا اثر تمہاری زندگی کے بعد بھی جاری رہا، اور آج یہ سب اکٹھا ہو کر تمہارے پلڑے میں رکھا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ دائمی نیکی اور نجات کا سب سے بڑا ذریعہ علمِ نافع ہے۔

تعلیم کا اَجر: علمِ نافع کے باعث دائمی نیکی

مجدد المئۃ الحاضرۃ دامت برکاتہم العالیۃ نے مزید کہا کہ: عزیزانِ محترم! اب جب آپ اپنی زندگی کا باب مکمل کر رہے ہیں، تو وہ اب تک تعلُّم کا تھا۔ آپ علم حاصل کر رہے تھے، اس پر غور کر رہے تھے اور لوگوں تک علم پہنچا رہے تھے۔ جب آپ عملی زندگی میں قدم رکھیں گے، ڈگری حاصل کریں گے اور ذمہ داریاں اٹھائیں گے، تب آپ علم کے باب میں داخل ہوں گے۔ یہ اجر تعلیم کا ہے کہ آپ نے علم حاصل کیا اور اسے دوسروں تک پہنچاتے رہے۔ آپ کے علم کے ذریعے لوگوں کی اصلاح ہوتی رہی، انہیں بھلائی ملی، حالات بہتر ہوئے، اور آپ کے بعد بھی لوگ اس علم پر عمل کرتے رہے۔ اسی عمل کو آج بادل کی شکل میں آپ کے نامہ اعمال میں رکھا گیا ہے۔ یہ وہ علم ہے جس نے آپ کو دوزخ سے بچایا، کیونکہ دین کا علم، لوگوں تک پہنچانے والا عمل، دعوت اور تربیت کا سلسلہ سب سے بڑی نیکی اور دائمی ثواب کا سبب بنتے ہیں۔

حاصلِ کلام

حقیقی نیکی اور نجات کا سب سے بڑا ذریعہ علم ہے، وہ علم جو محض کتابوں یا الفاظ تک محدود نہ رہے بلکہ انسان کے کردار، نیت اور دوسروں کی خدمت میں ڈھل جائے۔ ایسا علم دلوں میں روشنی ڈالتا ہے، رہنمائی فراہم کرتا ہے اور انسان کو خیر کا چراغ بناتا ہے۔ یہی علم نہ صرف زندگی میں فائدہ مند ہے بلکہ موت کے بعد بھی اپنی روشنی برقرار رکھتا ہے اور نامۂ اعمال میں دائمی ثواب کے دروازے کھولتا ہے۔ قیامت کے دن جب اعمال کے پلڑے تولے جائیں گے، کچھ لوگ اپنے گناہوں کے بھاری پلڑے دیکھ کر مایوس ہو جائیں گے، مگر اچانک ایک عمل، جیسے بادل کی شکل میں، اُن کے پلڑے میں ڈال دیا جائے گا اور سب کچھ بدل جائے گا۔ یہ وہ عمل ہوگا جو انہوں نے زندگی بھر لوگوں کو دین سکھانے، حق کی دعوت دینے اور نیکی کے چراغ جلا کر منتقل کیا۔ اسی علمِ نافع نے انہیں دوزخ سے نجات دی، کیونکہ حقیقی ثواب وہ ہے جو انسان کے مرنے کے بعد بھی دوسروں کے لیے روشنی اور رہنمائی کا سبب بنے۔ یہی علم، جس کے اثرات انسان کی زندگی اور بعد از حیات دونوں میں محسوس ہوتے ہیں، انسان کے اعمال کے پلڑے کو بھاری کر کے نجات کا سامان تیار کرتا ہے اور اسے دائمی مقام عطا کرتا ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top