قرآن اپنے لیے وہی سینہ چنتا ہے جو طہارت، احترام اور ادب کے چراغوں سے روشن ہو:پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

ہر نعمت کا ایک ادب ہے، جو اس ادب کو ادا نہیں کرتا وہ اُس نعمت کو زیادہ دیر اپنے پاس نہیں رکھ سکتا: صدر منہاج القرآن

قرآنِ مجید کا حفظ محض الفاظ یاد کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی ربانی نعمت ہے جو اپنے حامل سے طہارتِ قلب، خیال کی پاکیزگی اور ادبِ باطن کا مطالبہ کرتی ہے۔ دنیا کی ہر صلاحیت اور ہر نعمت کا اپنا ایک ناز اور ادب ہے، لیکن تمام علوم و فنون کے سردار علومُ القرآن کا نخرہ سب سے جُدا اور سب سے بلند ہے۔ قرآن کا نور ہر دل میں یوں نہیں اترتا؛ یہ اپنے لیے وہی سینہ منتخب کرتا ہے جو گندگی، وساوس اور برے تصورات سے پاک ہو۔ جس دل میں مَیل ہو وہاں یہ پاکیزہ امانت زیادہ دیر نہیں ٹھہرتی۔ اگر انسان خود گندی جگہ پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تو اللہ کا کلام میلے دل میں کیسے قیام کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ قرآن کو یاد کر کے بھول جاتے ہیں، ان کے لیے اصل پیغام یہی ہے کہ قرآنِ مجید کی سینوں میں بقا طہارتِ باطن، حسنِ اخلاق اور ادبِ دل کی مرہونِ منت ہے۔ جب دل و ذہن صاف ہوں، کردار پاکیزہ ہو اور معاملات درست ہوں تو نورِ قرآن سینے میں جڑ پکڑ لیتا ہے اور زندگی بھر کی امانت بن جاتا ہے۔

قرآن بھولنے کی وجہ کیا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: جو لوگ قرآن مجید حفظ کرتے ہیں اور حفظ کرنے کے بعد بھول جاتے ہیں، اُس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر نعمت اور ہر صلاحیت کے ساتھ ایک خاص تقاضا، ایک ناز اور ایک اَدب رکھا ہے۔ ہر کمال کا اپنا ایک نخرہ ہوتا ہے۔ حُسن کا بھی ایک ناز ہے اور ذہانت کا بھی ایک تقاضا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کو خوبصورتی دیتا ہے تو اسے اپنی خوبصورتی کا احساس ہوتا ہے، جب کسی کو غیر معمولی ذہانت دیتا ہے تو اس کے اندر بھی اپنی قابلیت پر فخر پیدا ہوتا ہے۔

اسی طرح علم کا بھی اپنا ادب اور اپنا نخرہ ہے۔ جب کوئی شخص بڑا عالم بنتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اللہ نے اُسے فہم و فراست عطا کی ہے، اور علم اس سے کچھ آداب کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی علم کے حصول کے لیے اس کے آداب کو ملحوظ نہ رکھے اور محنت پوری نہ کرے تو وہ علم اس کے اندر استقرار نہیں پکڑتا۔ یہی علم کا نخرہ ہے۔

علومُ القرآن کے لیے دل کی طہارت کا تقاضا:

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ جب دنیا کے ہر علم اور ہر صلاحیت کا اپنا ایک ناز اور تقاضا ہے، تو پھر تمام علوم کا سردار قرآنِ مجید اور علومُ القرآن اس سے کہیں زیادہ تکریم کے حق دار ہیں۔ اگر عام علوم کا بھی ایک نخرہ ہوتا ہے تو قرآن کے علم کا نخرہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ علم ہر شخص کے دل میں یوں نہیں اُترتا بلکہ اپنے لیے پاکیزہ اور منتخب سینہ چُنتا ہے۔

جب کوئی شخص قرآن کے علم کی حفاظت اُس کے آداب کے ساتھ نہیں کرتا، اس کا احترام ادا نہیں کرتا، اپنے دل کو پاک نہیں رکھتا، تو یہ علم اس کے سینے سے رخصت ہو جاتا ہے اور کسی ایسے دل کا انتخاب کر لیتا ہے جو اس کی قدر پہچانتا ہو۔ چونکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا نور ہے، اس لیے وہ صرف پاک دل ہی میں ٹھہرتا ہے۔ جیسے انسان خود گندی جگہ پر لیٹنا پسند نہیں کرتا، ویسے ہی اللہ کا پاک کلام میلے دل میں قیام نہیں کرتا۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: ہم انسان ہو کر خود گندی جگہ پر بیٹھنا یا رہنا پسند نہیں کرتے، تو پھر اللہ کا پاک کلام کسی ایسے شخص کے دل میں کیسے ٹھہرے گا جو برے خیالات، گندے تصورات، منفی احساسات اور شیطانی وساوس سے بھرا ہوا ہو؟ جب دل میلا ہو تو قرآنِ مجید جیسی پاکیزہ نعمت وہاں قیام کیسے کرے گی۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ نعمت تا دمِ آخر ہمارے پاس محفوظ رہے، تو ضروری ہے کہ ہم اپنے دل اور ذہن کو ہمیشہ پاک، صاف اور ستھرا رکھیں۔ اپنے کردار، اخلاق، عبادات اور معاملات کو درست رکھیں، کیونکہ قرآن اُس دل میں ٹھہرتا ہے جو طہارت، ادب اور پاکیزگی کا حق ادا کرتا ہو۔ جب انسان اپنے باطن کو پاک رکھتا ہے تو اللہ کی یہ نعمت اس کے سینے میں، اس کے دل و دماغ میں ہمیشہ محفوظ رہتی ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top