حافظِ قرآن کا اصل کمال بلند آواز نہیں، بلکہ بلند کردار اور نرم مزاجی ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
جس نے قرآنِ مجید کو اپنے سینے میں محفوظ کر لیا، گویا اُس نے علمِ نبوت کو ظاہری طور پر اپنے سینے میں محفوظ کر لیا: صدر منہاج القرآن
حافظِ قرآن کی زندگی وقار، حلم اور عملی ذمہ داری کی آئینہ دار ہونی چاہیے، کیونکہ اس کا اصل کمال بلند آواز یا سخت لہجے میں نہیں بلکہ بلند کردار اور نرم مزاجی میں ظاہر ہوتا ہے۔ جس شخص نے قرآنِ مجید کو اپنے سینے میں محفوظ کر لیا، گویا اس نے علمِ نبوت کو ظاہری طور پر اپنے دل میں سمو لیا، اور ایسی عظیم امانت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی گفتگو، رویّے اور معاملات قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ حافظِ قرآن اپنے اخلاق، صبر، برداشت اور حسنِ سلوک سے قرآن کا عملی نمونہ بنے، تاکہ اس کی زندگی دیکھ کر یہ محسوس ہو کہ اللہ کا کلام صرف اس کے سینے میں محفوظ نہیں بلکہ اس کے کردار میں بھی زندہ ہے۔
حافظِ قرآن کا وقار اور اَخلاقی ذمہ داری:
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: حافظِ قرآن کے شایانِ شان نہیں کہ وہ جھگڑالو لوگوں کے ساتھ اُلجھے یا جاہلوں کی طرح جاہلانہ انداز اختیار کرے، اس لیے کہ اس کے سینے میں اللہ تعالیٰ کا کلام محفوظ ہوتا ہے۔ قرآن کو یاد کرنا محض ایک فضیلت نہیں بلکہ ایک عظیم ذمہ داری اور عملی تقاضا ہے، جس پر عمل کرنا ناگزیر ہے۔ جب اللہ رب العزت کسی کو یہ بلند مرتبہ عطا فرما دے کہ وہ قرآنِ مجید کو اپنے سینے میں محفوظ کر لے، تو گویا اُس نے علمِ نبوت کو ظاہری طور پر اپنے دل میں سمو لیا۔ ایسی عظمت کے بعد حافظِ قرآن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ گلیوں، محلّوں، گھروں یا تعلیمی اداروں میں لوگوں سے جھگڑے، چیخے چلّائے یا غصّے کا مظاہرہ کرے۔ قرآن جس صبر، حلم اور وقار کی تعلیم دیتا ہے، اب وہی صفات حافظِ قرآن کی زندگی کا لازمی حصہ ہونی چاہییں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم امانت کے ساتھ ایک خاص اَخلاقی پابندی بھی عائد فرما دی ہے۔
حافظِ قرآن اور قَالُوا سَلَامًا کا عملی اُسوہ:
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں حافظِ قرآن کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ جھگڑے اور بے مقصد بحث سے مکمل اجتناب کرے۔ نہ کسی جھگڑالو شخص کے ساتھ اُلجھے اور نہ ہی بلا وجہ کسی سے تکرار کرے، بلکہ قَالُوا سَلَامًا کے قرآنی طریقے کو اختیار کرتے ہوئے خاموشی اور وقار کے ساتھ وہاں سے رخصت ہو جانا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ ربّ العزت نے حافظِ قرآن کے سینے میں اپنا کلام محفوظ فرما دیا ہے، اور یہ ایک عظیم الشان، بلند مرتبہ اور خاص عزت کا تقاضا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حافظِ قرآن کو ایک خصوصی مقام عطا فرمایا ہے، اِسی لیے اُسے غفلت میں مبتلا اور ناپسندیدہ گفتگو کرنے والوں کی صحبت سے بھی بچنا چاہیے، نہ ایسی مجالس میں بیٹھنا مناسب ہے اور نہ ہی ایسی دوستی اختیار کرنا۔ البتہ جب وہ اپنے گھر لوٹے تو اہلِ خانہ، دوستوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ محبت اور حسنِ سلوک پہلے کی طرح برقرار رہے گا، مگر اب غفلت، کمزوری اور گناہ کی باتوں میں شریک ہونا جائز نہیں۔ کیونکہ اب وہ اپنے سینے میں قرآنِ مجید کی امانت لے کر چل رہا ہے، اور اس امانت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا اصل کمال بلند آواز میں نہیں بلکہ بلند کردار اور نرم مزاجی میں ظاہر ہو۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)


















تبصرہ