جس علم کی بنیاد کتاب، سنت اور ادبِ نبوت پر ہو، وہی علم امت کے لیے رہنمائی اور رحمت بن جاتا ہے:پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

جو لوگ کسی قائد یا شیخ کی اقتداء میں مجتمع ہوں، ان پر لازم ہے کہ اپنی رائے کو مؤخر اور اپنے راہنما کی رائے کو مقدّم رکھیں: صدر منہاج القرآن

ریاستِ مدینہ میں فیصلوں کا اصل اور بنیادی اصول یہ تھا کہ ہر معاملہ سب سے پہلے کتابِ اللہ کی روشنی میں طے کیا جائے، اور اگر وہاں صراحت نہ ہو تو سنتِ رسول ﷺ کو میزان بنایا جائے، اور اس سارے عمل میں ادبِ نبوت کو مقدّم رکھا جائے۔ یہی وہ منہج تھا جس نے فیصلوں کو محض قانونی کارروائی نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی ذمہ داری بنا دیا۔ جب علم کی بنیاد قرآن، سنت اور حضور نبی اکرم ﷺ کے ادب پر قائم ہو تو وہ علم محض معلومات کا مجموعہ نہیں رہتا بلکہ امت کے لیے رہنمائی اور رحمت بن جاتا ہے، کیونکہ ایسا علم نفس کی خواہشات سے پاک، عدل سے مزین اور خیرِ عامہ کا ضامن ہوتا ہے۔ ریاستِ مدینہ کا یہی اصول تھا کہ علم اور اختیار وحی کے تابع رہیں، اور اسی تابع داری نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جو انصاف، اعتماد اور اخوت کی روشن مثال بن گیا۔

فیصلہ سازی میں ریاستِ نبوی ﷺ کا فکری منہج:

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ معروف واقعہ تاریخِ اسلام میں نہایت اہم اور بامعنی حیثیت رکھتا ہے، جب رسولِ اکرم ﷺ نے آپؓ کو یمن کا قاضی بنا کر روانہ فرمایا۔ رخصت کے وقت آقا ﷺ نے نہایت شفقت اور حکمت کے ساتھ سوال فرمایا: اے معاذ! تم فیصلے کس بنیاد پر کرو گے؟ حضرت معاذؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اگر کتاب اللہ میں اس کا واضح حکم نہ ملے تو؟ عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! پھر میں آپ ﷺ کی سنت اور آپ کے نقشِ قدم کی پیروی کروں گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے پھر ارشاد فرمایا: اگر سنت میں بھی صراحت نہ ہو تو؟ اس پر حضرت معاذ بن جبلؓ نے نہایت ادب، وقار اور اعتماد کے ساتھ عرض کیا:

أَجْتَهِدُ بِرَأْيِى۔

1- ابن أبی شیبۃ، المصنف، جلد6، ص 13، رقم: 29100
2 - نسائی، السنن الکبری، جلد10، ص 114، رقم: 20126
3- بیہقی، السنن الصغری، جلد 9، ص 34، رقم: 4169

’’یعنی پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔‘‘ (اور حق تک پہنچنے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔)

یہ مکالمہ محض اسلامی قانون کے مصادر کی وضاحت نہیں کرتا بلکہ اس میں ایک عظیم ادبی، روحانی اور اخلاقی پہلو بھی پنہاں ہے۔ حضرت معاذؓ کا ہر جواب اس بات کی دلیل ہے کہ علم کا اصل حسُن ادب میں ہے؛ پہلے کتاب اللہ، پھر سنتِ رسول ﷺ، اور اس کے بعد بھی اپنی رائے کو خود مختار نہیں بلکہ رسولِ اکرم ﷺ کی اجازت اور رہنمائی کے تحت استعمال کرنا۔ یہی وہ ترتیب ہے جو علم کو فتنہ نہیں بلکہ رحمت بناتی ہے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اس حدیث کی توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کا جواب سنا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اَلْحَمْدُ للَّهِ الَّذِى وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ۔

1- ابن أبی شیبۃ، المصنف، جلد6، ص 13، رقم: 29100
2 - نسائی، السنن الکبری، جلد10، ص 114، رقم: 20126

’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسولِ اللہ ﷺ کے نمائندے کو اس کام کی توفیق عطا فرمائی جو رسولِ اللہ ﷺ کو راضی کرنے والا ہے۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ کا اس جواب پر خوش ہونا اور اللہ کی حمد بجا لانا اس اجتہادی طرزِ فکر کی تائید ہے جو ادبِ نبوت اور حدودِ شریعت کے اندر رہ کر اختیار کی جائے۔

قیادت کی اقتداء سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں:

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: اس واقعہ کے اندر حضور نبی اکرم ﷺ نے امت کو ایک عظیم ادب سکھا دیا کہ فیصلے کی بنیاد سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی کتاب پر ہونی چاہیے، اس کے بعد تاجدارِ کائنات ﷺ کے نقوشِ قدم، آپ ﷺ کی سنت، آپ ﷺ کے فرامین اور آپ ﷺ کی تعلیمات کو مقدم رکھا جائے، اور اس کے بعد اگر ان دونوں مصادر میں صراحت نہ ملے تو بندہ اپنی رائے پیش کرے، وہ بھی اس احساس کے ساتھ کہ یہ رائے ناقص ہے اور وحی و سنت کے تابع ہے۔ یہی وہ ترتیب ہے جو رائے کو اجتہاد بناتی ہے اور نفس پرستی سے محفوظ رکھتی ہے۔

یہی دوسرا پہلو مدنی معاشرے کے قیام کی اصل روح ہے، جہاں فرد اپنی عقل کو میزانِ حق نہیں بناتا بلکہ قیادتِ نبوی ﷺ اور اس سے وابستہ نظام کو مرکز بناتا ہے۔ ایسے معاشرے میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ جو لوگ کسی عظیم مقصد کے لیے کسی قائد، شیخ یا راہنما کی اقتداء میں جمع ہوں، ان پر لازم ہے کہ اپنی ہر رائے کو کم تر سمجھیں اور فضیلت و اوّلیت اپنے قائد کی رائے کو دیں، کیونکہ نظم، وحدت اور فکری استحکام اسی ادبِ اقتداء سے جنم لیتا ہے۔ یہی وہ اصول ہے جو بکھرے ہوئے افراد کو ایک مضبوط، باوقار معاشرہ عطا کرتا ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top