اسلام کا اسنادی پہلو اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

محمد عمر حیات الحسینی (ریسرچ سکالر فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اسلام کی شاہراہ مسلسل کے داعی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم و اہلبیت اطہار کے نفوس قدسیہ تھے اور وہ ا پنے اپنے دائرہ رسوخ میں بندگان خدا کو اس شاہراہ کی دعوت دیتے رہے اور آئندہ آنے والی نسلیں ان ہی کے نقوش سیرت اور نورِ احوال سے اس منزل کا سراغ پاتی رہیں۔ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم آسمان رشد و ہدایت کے چمکتے آفتاب تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عالمی رحمت کی ایک صورت تھے۔ ان کا اختلاف بھی رحمت تھا، جس سے زندگی کے ہر خاکے میں طرح طرح کے رنگ نکھرتے گئے۔

جس طرح رجوع الی اللہ کی دعوت تمام انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کا اجتماعی نقطہ تھا، اسی طرح سب امت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس تک لا نا تمام اوّلین و آخرین کا اجتماعی نقطہ رہا اور رجوع الی الرسول کی دعوت ہی ان کی اصل منزل کے لئے بنیاد اور وسیلہ لابدی قرار پائی اور قیامت کے دن بھی یہی مرکزی نقطہ ہو گا۔ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی ہمیشہ یہ تمنا رہی کہ آئندہ آنے والے لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور غلامی میں جڑ جائیں اور اسلام کی شاہراہ مسلسل پر گامزن ہوجائیں۔

ان کی دعا رہی کہ اسلام کا ہر قافلہ اپنے بعد آنے والوں کی پیروی سے اپنے پہلوں کے ساتھ مسلسل رہے۔

قرآن و سنت کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ ہر عہد میں امت کا ما بعد اپنے ما قبل سے متصل اور مسلسل ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی رسی کا ہر جزو اپنے ماقبل اور مابعد سے موصول اور منضبط ہو یہ دین اسلام کی علمی میراث اور اس کا تہذیبی ورثہ ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے تابعین، تبع تابعین اور ائمہ و اکابرین امت کو پہنچا۔ اس کی شاہراہ مسلسل ’’خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم‘‘ کی بشارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صحابہ و تابعین سے مسلسل چلی آ رہی ہے اور ان سے اپنا فکر و عمل متصل اور وابستہ رکھنے ہی میں فلاح کا راز مضمر ہے۔

پس وہی اہل دین صحیح لائق تقلید ہوں گے جن کا علم و فہم سند ماضی سے منقطع ہو نہ مقطوع ہو اور ہم صرف انہی لوگوں کو ہدایت یافتہ کہہ سکتے ہیں کہ جن کے علم کے طرق اور اسانید متصل اور مضبوط بھی ہیں اور مسلسل بھی۔ وہی لوگ علمائے ربانی کہلانے کے مستحق ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک زنجیر کی کڑیوں کی طرح مربوط ہیں۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کا کوئی قرن ائمہ، مجددین، مصلحین اور صالحین سے خالی نہیں رہا۔ ائمہ علم و فن، ائمہ رشد و ہدایت اور ائمہ سلوک و معرفت کی کسی زمانے میں کمی نہیں رہی۔ ان وارثان نبوت میں کوئی طبقہ نسبتِ اسلام کا محافظ رہا، کوئی نسبتِ ایمان کا محافظ رہا اور کوئی نسبتِ احسان کا، کوئی الفاظ و علوم قرآن کا اور کوئی نسبتِ صاحب فرقان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔ ان تمام طبقوں کا تا قیامت باقی رہنا یہی اسلام کا تسلسل ہے اور یہ اس کا عظیم معجزہ ہے۔

قرآن و سنت کی کثیر نصوص میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اسلام کی شاہراہ مسلسل پر قائم رہنے والا طبقہ قیامت تک باقی رہے گا اور کوئی باطل قوت اس کو اپنی جڑ سے نہ اکھاڑ سکے گی۔ حق و باطل کی معرکہ آرائی برابر جاری رہے گی۔ جس طرح قرآن و سنت کی ہدایت مسلسل رہے گی اسی طرح گمراہی بھی برابر چلے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ان کے درمیان امتیاز کیسے ہو؟ اس کا جواب ذہن نشین کرلینا چاہیئے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ خط مستقیم صرف ایک ہوتا ہے جبکہ ٹیڑھے خط کئی ہوتے ہیں اس طرح ہدایت کی راہ بھی ایک ہے اور گمراہی کی راہیں بے شمار ہیں۔ گمراہی و ضلالت کی ہر راہ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے جیسے ٹیڑھے خط آپس میں سب مختلف ہوتے ہیں مگر غلط اور گمراہ ہونے میں سب برابر ہیں، اس لئے کہ ضلالت و گمراہی پھیلانے والے لوگ اپنے طریقہ کو کبھی ایک دوسرے کی طرف اسناد نہیں کرتے۔ نمرود، فرعون، شداد، ہامان اور یزید سب اپنے اپنے عہد میں ائمۃ الکفر تھے مگر ایک دوسرے سے انتساب کے ہرگز دعویدار نہ تھے۔ ان کے برعکس انبیاء و رسل عظام علیہم السلام جو ائمہ رشد و ہدایت تھے اور سرچشمہ فلاح تھے، یہ تمام ایک دوسرے کے مصدق اور مؤید تھے۔

منکرین ختم نبوت ہوں یا منکرین حدیث و سنت یا مقام نبوت کی اہانت و تنقیص کرنے والے ہوں یہ تمام ضلالت و گمراہی کے امام ہیں۔ مگر آپس میں کوئی انتساب نہیں رکھتے۔ اور ان میں سے کسی نے اپنے طریقہ کفر و انحراف کو اپنے ماقبل سے اسناد نہیں کیا۔ یہ تمام اپنے اپنے طریقہ انحراف کے موجد ہوتے ہیں۔ اس کے بالمقابل وہ تمام اہل حق جو ائمہ رشد و ہدایت بنے وہ آپس میں اسناد و اعتماد رکھتے ہیں کیونکہ حق کی راہ مسلسل ہدایت کی راہ ہے اس لئے اسے ’’صراط مستقیم‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور صراط مستقیم کی پہچان علم، فکر یا عقیدہ کے نام سے نہیں بلکہ رجال، اشخاص اور اسناد کے نام سے کرائی گئی ہے۔

ارشاد ہوتا ہے:

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْO

(الفاتحه، 1 : 6)

’’اشخاص و رجال کی راہ ہے جو انعامِ الٰہی سے بہرہ یاب ہوئے ہیں۔ ‘‘

گویا ہمیں رجال اور ان کے نقوش قدم کی طرف متوجہ کر دیا گیا ہے، اس لئے اس راستے کے پیروکار آپس میں اسناد و اعتماد رکھتے ہیں اور گمراہی کی راہیں جو ہر عہد میں موجود رہیں لیکن وہ آپس میں مسلسل اور مربوط نہیں ہیں۔

صراط مستقیم کی پیروی کرنے والے اہل حق جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں پھیلتے چلے گئے وہ گو فرداً فرداً معصوم نہ ہوں، مگر ان کا مجموعی مؤقف ضرور معصوم رہا ہے یہ تو درست ہے کہ انفرادی طور پر معصوم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں اختلافات ہوئے مگر ان کے اختلافات فروعی تھے۔ اصول و عقائد کے نہیں، اس لئے ان کی توجیہہ کی جاتی ہے تردید و تغلیط نہیں اور فقہی اختلافات میں بھی انہیں راجح اور مرجوح سے آگے نہیں جانے دیا جاتا۔ اس لئے کہ ان سب کے باوجود یہ ایک راہ ہے اور یہ راستہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم کی جماعت کا راستہ ہے۔ یہ تمام اہل حق اپنے ہر عقیدے اور عمل کی سند اپنے ما قبل سے لیتے رہے اور اسی طریق سے یہ متوراث دین ہم تک پہنچا ہے۔

یہ سلسلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے چلا اور ارض ہند و پاکستان میں بارھویں صدی کے بعد یہ اسناد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات میں جمع ہو گئے۔ پاک و ہند بلکہ بیشتر بلادِ عربیہ کی اسناد کا بھی آپ سرچشمہ ٹھہرے اور آپ کی ذات روشنی کا مینار قرار پائی۔ بعد میں آنے والے سب اہل علم انہی سے سند لیتے رہے اور ان کی ذات اہل حق کے سلسلہ اسناد میں مرجع بن گئی۔

شیخ الاسلام پروفیسرڈاکٹر محمد طاہر القادری کا شجرہ علمی اور اسنادی پہلو امام الھند حضرت شاہ ولی اللہ کی طرح ہمہ جہت اور متنوع طرق کا آئینہ دار ہے کیونکہ وہ تمام بلادِ اسلامیہ کے شیوخ کا حامل ہے۔ اسی وجہ سے ان کے مسلکی مزاج میں حد درجہ توازن و اعتدال پایا جاتا ہے۔ آپ دین کے سمجھنے سمجھانے میں اسلام کی مسلسل شاہراہ پر گامزن ہیں۔ ائمہ سلف سے رہنمائی پاکر اسلام کی رشد و ہدایت کو آئندہ نسلوں کے لئے جدید پیرائے میں متوازن انداز میں منتقل کرتے جا رہے ہیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ العالی کا اسنادی پہلو نہایت جامع ہے۔ علم و حکمت، فقہ و حدیث اور تزکیہ نفوس ہر اعتبار سے ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہے۔

فقہ میں چاروں ائمہ مجتہدین سے انتساب علمی رکھتے ہیں۔ گو مقلداً حنفی ہیں لیکن دیگر ائمہ کے استخراجات کے شعور کی بھی پوری طرح لذت محسوس کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اسنادی پہلو پر بنظر انصاف غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں نہ ظاہریت کی تفریط ہے اور نہ باطنیت کی افراط بلکہ قرون اولی کے سلف صالحین کا توازن و اعتدال آپ کا مسلک مختار ہے۔

شیخ الاسلام مدظلہ العالی کا اسنادی پہلو آپ کی ہمہ جہت شخصیت کا ترجمان ہے۔ اس لئے ان اکابر کے اوصاف صاف چھلکتے ہیں۔

  • کبھی آپ مسند تصوف و سلوک پر حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں بولتے نظر آتے ہیں۔
  • کبھی آپ علم و حکمت میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔
  • کبھی آپ فقاہت و افتاء پر قلم کی جولانیاں آشکارا کرتے ہیں تو امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کی خوشبو بکھیرتے ہیں۔
  • جب آپ تفسیر قرآن بیان کرتے ہیں تو امام رازی، امام روضبہان بقلی، امام قرطبی، امام محمود آلوسی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہم کی طرح دقیقہ سنجی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔
  • جب آپ علم حدیث پر کلام کرتے ہیں تو امام بخاری، ابن حجر عسقلانی، امام قسطلانی، امام ذہبی اور امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہم کی صورت ہوجاتے ہیں۔
  • جب آپ نغمہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ساز درد چھیڑتے ہیں تو آپ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ، رومی رحمۃ اللہ علیہ، جامی رحمۃ اللہ علیہ اور اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا روپ دھار لیتے ہیں۔
  • جب آپ تذکار رسالت کے گن گاتے ہیں تو آپ ابن اسحاق، ابن ہشام صالحی شامی اور امام یوسف النبھانی رحمۃ اللہ علیہم کا عکس جمیل دکھائی دیتے ہیں۔
  • جب آپ تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں تو آپ، طبری، ابن عساکر ابن اثیر اور ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہم کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔
  • جب آپ نقد روایت پر جرح و تعدیل کرتے ہیں تو آپ امام یحییٰ بن معین، ابوحاتم، ابوزرعہ الدمشقی، ابن ابی حاتم، امام الباجی، امام مزی، امام ذہبی اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہم جیسی نکتہ رسی اور ژرف نگاہی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
  • آپ گلستان سلوک و معرفت کے عندلیب خوش نوا، عبدیت و انابت کے پیکر، لذت سحر خیزی کے سوز و ساز سے مزین و مرصّع، محبت و شفقت، نرمی و لینت، حلم و بردباری، تواضع و انکساری اور عفو و درگزر کے حسین و جمیل پیکر ہیں۔
  • آپ تفکر میں امام محدث حسن الشیبانی رحمۃ اللہ علیہ، ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ شامی کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
  • اورآپ تدبر میں امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ، اور امام زفر رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر نظر آتے ہیں۔
  • آپ ذوق عبادت، شوق ریاضت، تقویٰ و طہارت میں امام ابوطالب مکی رحمۃ اللہ علیہ، امام جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ دکھائی دیتے ہیں۔
  • آپ ذکاوت و فطانت میں امام شبعی، امام اعمش اور ابن حزم اندلسی کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔
  • آپ فصاحت و بلاغت میں امام زمخشری، امام اصفہانی، ابن منظور افریقی اور امام جوہری رحمۃ اللہ علیہم کا آہنگ پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
  • آپ بہادری و شجاعت، سنجیدگی و متانت، سچائی و صداقت، جود و سخاوت، کلام کی حلاوت، نفس کی شرافت، طبیعت کی نفاست اور سوچ کی لطافت میں امام حسین رضی اللہ عنہ، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ، امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اور بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ جیسے اکابر کے نقوش سیرت و احوال سے مستنیر دکھائی دیتے ہیں۔
  • آپ قلب کی حرارت میں فیضان مرتضوی رضی اللہ عنہ کے امین و قاسم دکھائی دیتے ہیں۔
  • آپ ایمان کی فراست میں نسبت فاروقی کے مظہر نظر آتے ہیں
  • آپ اعتدال و عدالت میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا پرتو کامل نظر آتے ہیں۔
  • آپ حریم نبوت کی پاسبانی کے درد کا مجسم نمونہ نظر آتے ہیں۔
  • آپ اپنے جمال جہاں آراء کو مسانید کی تجلیات سے پر کیف اور دل آویزاں بنائے ہوئے ہیں۔

امت کے پہلے مجدد سے لے کر آج تک جتنے مصلحین و مجددین ہوئے ہیں وہ آپ کی اسانید میں قطار بہ قطار اور صف بہ صف فیض دیتے نظر آتے ہیں۔ امت مسلمہ کے پہلے فرد ’’ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘‘ کے نام نامی کا اوّل حرف ’’الف‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور پندرھویں صدی کے عظیم مجدد شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے نام کا حرف آخر یاء پر ختم ہوتا ہے لہٰذا جب میں تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر ایک طائرانہ نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ان اکابر کے اوصاف کی حامل ایک شخصیت نظر آتی ہے۔

جن کے طیب نفس سے عالم اسلام معطر ہو رہا ہے، جن کی زبان قدسیہ سے صراط مستقیم کی شمعیں روشن ہو رہی ہیں، جن کے صالح اعمال کو دیکھ کر لوگ راہ ہدایت حاصل کر رہے ہیں۔ آپ کی خدمات آسمان علم و عمل پر ستاروں کی مانند چمک رہی ہیں۔ آپ کے علمی نکات اور اجتہادی تفردات موتیوں کا گہوارہ ہیں۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شخصیت عصر حاضر میں متقدمین اور متاخرین کے مابین نقطۂ اتصال ٹھہرتی ہے۔ آپ کی علمی تحقیقات کے مطالعہ سے دل و دماغ مہک جاتا ہے اور ناموس عشق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے۔ آپ کے کلامی مباحث کے مطالعہ سے عقائد میں پختگی اور اعمال میں چستی آجاتی ہے۔ آپ کے فقہی لٹریچر کے مطالعہ سے قلوب و اذہان کی منجمد کڑیاں اور دماغ کی بند کھڑکیاں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ آپ کے سلوک و تصوف و معرفت پرنکات آفرینی کے مطالعہ سے جگر کو حلاوت، دل کو لطافت، آنکھوں کو نور، بے چین روحوں کو سرور، دماغ کو تازگی، لسان کو شائستگی اور ایمان کو جلا ملتی ہے۔ آپ کے تفسیری جہان کا مطالعہ ایک منفرد اور یکتا موتی کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔ تفسیری معارف کے چشمے ابل رہے ہیں۔ آپ کی کتب حدیث عقائد و احکام کا انسائیکلو پیڈیا ہیں۔

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top