اسلام ایک قابل عمل، پرامن اور روشن خیال دین ہے : محمد طاہرالقادری
اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ علم و عمل، تحقیق اور استقامت سے کیا جا
سکتا ہے
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی منہاج یونیورسٹی کے پروفیسرز سے گفتگو
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ پہلی صدی ہجری کے اختتام سے قبل اسلامی ریاست یورپ، افریقہ اور ایشیاء تک پھیل چکی تھی۔ پوری دنیا میں اسلامی کلچر غالب تھا اور ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک صحابہ فلاسفرز، قانون دان، سائنس دان، محدث، مفسر، سکالرز اور فوجی کمانڈر بن کر پوری دنیا میں پہنچ چکے تھے۔ علم و معرفت کے ان سرچشموں سے سارا عالم پیاس بجھا رہا تھا مگر غیر مسلم مستشرقین اس عظیم الشان مثالی دور کو Dark ages کہہ کر کھلی اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ منہاج یونیورسٹی کے پروفیسرز سے کینڈا سے ٹیلی فونک گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 15 ,16 ہجری میں صحابہ کرام خضدار، ایران، بلوچستان اور سندھ تک پہنچ گئے جبکہ عہد عثمانی میں سپین میں مسلمانوں کی فوجی چھاؤنی بھی قائم ہو چکی تھی۔ نصابی کتب میں درست نہیں لکھا کہ اسلام93 ,94 ہجری میں محمد بن قاسم کے سندھ اور طارق بن زیاد کی سپین آمد سے وہاں پہنچا۔ محمد بن قاسم نے سندھ اور طارق بن زیاد نے سپین میں اسلامی ریاست قائم کی۔ اس سے تقریباً 80 سال قبل اسلامی تہذیب و ثقافت صحابہ کرام کے ذریعے وہاں پہنچ چکی تھی۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ اسلام کی خدمات، عظمت اور خوبیوں کا انکار کرنا اکثرغیر مسلم مستشرقین کا بنیادی ہدف ہے۔ وہ متعصبانہ ذہنیت کے باعث اسلام کے کمالات کو نظر انداز کر کے اس کاچہرہ مسخ کر کے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ غیر مسلم مستشرقین کا مشن ہے کہ اسلام کی ایسی تصویر دنیا کو دکھائی جائے جس میں اس کے کمالات، عظمت اور انسانیت کے لئے تاریخی خدمات کی کلیتاً نفی ہو اور اسلام ایک قابل عمل، پرامن اور روشن خیال دین کے طور پر نہ جانا جاسکے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ اسلام کے خلاف ہونے والی ان سازشوں کا مقابلہ علم، عمل اور تحقیق کو استقامت کے ساتھ جاری رکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے اس سلسلے میں اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس موقع پر قائمقام ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض، جی ایم ملک، ڈاکٹر ظہوراللہ الازہری، عباس نقشبندی اور جواد حامد بھی موجود تھے۔
تبصرہ