ادارہ کی تشکیل۔۔۔ اہمیت و ضرورت (حصہ دوم)

سلسلہ تعلیم و تربیت، حصہ: 2، جدید منتظمیت

ماخوذ از افادات شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی (مرکزی امیر منہاج القرآن انٹرنیشنل)

قول و اقرار اور عہد کی اہمیت

بحیثیت مومن ہم سب نے اپنے خالق و مالک اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اُس کو ایک ماننے، اس کی ربوبیت و الوہیت کا اقرار کرنے، حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی ماننے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے کا ایک اقرار اور عہد کیا ہے۔ یہی اقرار و عہد ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔ اسی اقرار و عہد کے تتبع میں منہاج القرآن کی رفاقت کا فارم یا عہد نامہ رفاقت بھرتے وقت ہم اس قرآنی آیت کے الفاظ کے ذریعے تجدید عہد کرتے ہیں کہ

اِنَّ صَلَاتِیْ و نُسُکِیْ و مَحْيَایَ وَمَمَاتُیِ للّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَo

بیشک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سب بندگی سمیت) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

(الانعام: 163)

یہ وُہ عظیم الشان عہد ہے جو ہم نے بحیثیتِ مومن ’ادارہ‘ میں شمولیت کے وقت اپنے خالق و مالک کے ساتھ کیا ہے۔ مسلمان کی ایک پہچان عہد و اقرار کو پورا کرنا بھی ہے۔

عہد و اقرار کو پورا کرنے کی تاکید اور حکم ہمیں قرآن و سنت میں جابجا ملتا ہے۔

  • سورۃ المائدہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:

’’مسلمانو! اپنے اقراروں کو پورا کرو‘‘۔

  • سورۃ الصف میں ارشاد الہی ہے:

’’ مسلمانو! ایسی بات کیوں کہہ دیتے ہو جو تم کر کے نہیں دکھاتے(یہ بات) اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے کہ کہو(سب کچھ) اور کرو(کچھ) نہیں‘‘۔

  • اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے:

’’ اور عہد کو پورا کیا کرو کیونکہ(قیامت میں) عہد کی باز پرس ہو گی‘‘۔

  • بد عہدی کی سزا بارے قرآن مجید کی سورہ آل عمران میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:

’’ بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور قسموں کا تھوڑی سی قیمت کے عوض سودا کر لیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ ان سے کلام فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ ہی ان کو پاکیزگی دے گا اور ان کے لیے درد ناک عذا ب ہوگا۔‘‘

  • نبی مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن کا وعدہ (قرض کی طرح) واجب الادا ہے اور مومن کا وعدہ ایسا ہے کہ جیسے ہاتھ پکڑ لیا۔ (کنزالعمال)
  • حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سب سے بہتر بندے وہ ہوں گے جو خوش دلی سے وعدہ وفا کرتے ہیں۔
  • حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ایک حدیث پاک کی روایت یوں ہے کہ وعدہ کرنے والے کا اقرار قرض کی طرح ہے یا اس سے بھی زیادہ۔

درج بالا فرامین سے قول و اقرار اور عہد کی اہمیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی منصبی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران کئے گئے عہد و اقرار کو پورا کرنے کا کماحقہ اہتمام کرتے ہیں یا نہیں؟ افسوس! ہماری پوری قوم کا بالعموم اور مقتدر طبقات کا بالخصوص یہ مزاج بن چکا ہے کہ ہم جن ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا عہد و اقرار کرتے ہیں، اُن سے اغماض برتنا اور اُن ذمہ داریوں کے تقاضوں کو نظر انداز کرنا ہماری سرشت بن چکا ہے۔

ریاستِ پاکستان کی مقتدر شخصیات کا حلف نامہ

وطن عزیز پاکستان میں ریاست اور سیاستِ مُدَن کے تمام مقتدر اور اعلیٰ ادارے کے اراکین بشمول صدر، وزیراعظم، ممبران قومی اسمبلی، اراکین سینٹ، ممبران اسمبلی، گورنرز، ججز، الیکشن کمیشنز، مسلح افواج کے سربراہان الغرض جملہ مقتدر و اعلیٰ ریاستی شخصیات اللہ تبارک وتعالیٰ اور عوام الناس کے سامنے، اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ’’امانت‘‘ یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خود مختاری، سا لمیت، استحکام، بہبود، خوش حالی اور اُس میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کا حلف(Oath) اٹھاتے ہیں اور اللہ جل مجدہ‘ کے ساتھ اس حلف کی پابندی کا عہد کرتے ہیں۔

صدر مملکت،وزیر اعظم،وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان اور اراکین کے حلف ناموں کے الفاظ معمولی ردّوبدل کے ساتھ کم و بیش آپس میں مماثلت رکھتے ہیں۔ اس حلف نامہ میں وہ کیا کیا اقرار و عہد کرتے ہیں۔ بطور نمونہ وزیر اعظم پاکستان کا حلف نامہ ملاحظہ فرمائیں کہ وہ اپنی ذمہ داری سنبھالتے وقت اپنے مومن و مسلمان ہونے کے اقرار کے بعد یوں اقرار و عہد کرتا ہے کہ

’’میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفا دار رہوں گا:کہ بحیثیت وزیر اعظم پاکستان‘میں اپنے فرائض و کارہائے منصبی ایمانداری‘اپنی انتہائی صلاحیت اور وفاداری کے ساتھ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق اور ہمیشہ پاکستان کی خود مختاری‘ سا لمیت‘ استحکام‘ بہبودی اور خوش حالی کی خاطر انجام دوں گا:کہ میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہوں گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے:کہ میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام یا اپنے سرکاری فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دوں گا:کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا:کہ میں ہر حالت میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ‘بلا خوف و رعایت اور بلارغبت و عناد‘ قانون کے مطابق انصاف کروں گا:اور یہ کہ میں کسی شخص کو بلاواسطہ یا بالواسطہ کسی ایسے معاملے کی نہ اطلاع دوں گا اور نہ اسے ظاہر کروں گا جو بحیثیت وزیر اعظم پاکستان میرے سامنے غور کیلئے پیش کیا جائے گا یا میرے علم میں آئے گا بجزجب کہ بحیثیت وزیر اعظم اپنے فرائض کی کما حقہ انجام دہی کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو۔(اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے۔آمین)

حلف کے تقاضے

اس حلف نامہ کے الفاظ اور مسندِ اقتدار پر فائز اِن حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ چاہئے تو یہ کہ حلف نامہ کے ایک ایک لفظ کی پاسداری کی جائے اور اس قول و اقرار پر پورا اترنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگادی جائے مگر اس قول و قرار کے برعکس امور کی انجام دہی کی وجہ سے ہی ملک پاکستان زوال کا شکار اور عوام پاکستان اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ جس کی بنیاد نظریہ پر قائم ہے۔ تحریک اور قیام پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں، اموال و املاک اور اولاد کی قربانیاں دے کر اس اسلامی ریاست کو دین مبین کی ترویج، اشاعت اسلام اور ارکان اسلام پر عمل کرنے کے لیے حاصل کیا۔ یہ ملک ایک عظیم نعمت خداوندی ہے اور پہلی اسلامی ریاست مدینہ کی طرز پر اس کو اسلام کے بنیادی عقائد پر عمل کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔تحریک پاکستان کے ایام میں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ نے واضح اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا بنیادی دستور قرآن حکیم فرقان مجید ہوگا۔ اس قول کی روشنی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو طویل جدوجہد کے بعد مرتب کیا گیا۔ اس آئین پاکستان میں واضح طور پر درج ہے کہ

’’چونکہ اللہ تبار ک وتعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کی عوام کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘

اسلامی جمہوریہ پاکستان؛ جمہور مسلمانوں کا وطن ہے جو اسلامی نظام و تعلیمات کے نفاذ کے لیے تخلیق کیا گیا۔ لہذا اس اسلامی ریاست کا ادارتی نظام ان بنیادی اصولوں پر ہونا چاہئے جو قرآن و سنت نے وضع کئے ہیں۔ سورۃ النساء کی آیت58 میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو امانت کی سپردگی کے لیے’’اہلیت‘‘ کو شرط اول قرار دیا ہے کہ

اِنَّ اﷲَ يَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰـنٰـتِ اِلٰی اَهْلِهَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ.

’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو‘‘۔

لہذا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد اہلیت، عدل، امانت اور دیانت پر قائم ہوگی اور مملکت کے ادارتی نظام کے ہر ذمہ دار فرد پر واجب ہے کہ وہ اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس امانت اور ذمہ داری کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا نے کے لیے تیار ہے تو اس کی پہلی شرط قرآن و سنت کے مطابق اس کی ذاتی ’’اہلیت‘‘ ہو گی اور آئین پاکستان اور اس کے حلف کے مطابق وہ پوری ’’دیانتداری‘‘ سے مملکت اور عوام کے لیے جو فرائض سر انجام دے گا وہ’’عدل‘‘ پر مبنی ہوں گے۔

پاکستان کے قیام کو 69 برس ہو چکے ہیں۔ حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے چندگنے چنے اہل، عادل اور دیانتدار ساتھیوں کے وصال کے بعد مملکت پاکستان کے حکمران، حکام اور عمّال کی طرزِ حکمرانی کا جائزہ لیں کہ کیا انہوں نے قرآن و سنت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی روشنی میں اپنی پوری صلاحیت، اہلیت، دیانت اور عدل سے اس مقدس ملک میں حقوق اللہ اور حقوق جمہور کی پاسداری اور حفاظت کا فریضہ سر انجام دیا ہے؟

یہ سوال روز قیامت صرف وطن عزیز پر حکومت کرنے والے حکمرانوں، حکّام اور عمّال سے ہی نہیں بلکہ پاکستان کی عوام سے بھی کیا جائے گا کہ اللہ سبحان وتعالیٰ کی عطا کردہ مملکت، جو ان کے پاس ایک مقدس امانت کی صورت میں موجود تھی انہوں نے اس کی باگ ڈوراللہ تعالیٰ کے فرامین کے نفاذ اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے کن اہل اور مستحق حقداروں کے سپرد کی تھی؟

اس لئے کہ اسلام کے مطابق امانت کا اصل اور حقیقی حامل(sustainer)عوام کو قرار دیا گیا ہے۔ قادرِ مطلق اور اس مقدس امانت کے بخشنے والے رب جلیل کی جانب سے عوام کو تاکید کی گئی ہے کہ امانتیں صرف ان لوگوں کے سپرد کرو کہ جو ان کے اہل اور صحیح حقدار ہیں یعنی قیام اقتدار کے لیے حق رائے دہی(right of public opinion) استعمال کرتے وقت یہ امر ملحوظ رکھا جائے گا کہ صرف اہل و مستحق افراد ہی امانتِ اقتدار کے لیے منتخب(elect) کئے جائیں۔ علمی اور عملی طور پر نااہل اور غیر مستحق افراد نہ امانتِ اقتدار کو سنبھالنے کے لیے خود کو پیش کر سکتے ہیں اور نہ عوام ان کو منتخب کر سکتے ہیں۔ قرآن حکیم یہ بات لوگوں کو حکمِ الہی کے طور پر تاکیدًا سنا رہا ہے جس میں کسی قسم کی رعایت کی گنجائش نہیں۔

معاشروں میں صلاح و فساد کا باعث کون؟

اللہ تعالیٰ نے فرشتوںاور ابلیس کے سامنے روئے زمین پر نظام الہی قائم کرنے کے لیے کامل انسان(homo-sapien) حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد اس کو اپنا خلیفہ بنانے کا اعلان فرمایا۔ خلیفہ ہونے کے لیے ایک مکمل خلافت اور ادارہ کا وجود لازم ہوتا ہے جبکہ ادارتی نظام کو کامیابی سے چلانے کے لیے ایک نیک صالح مومن حکمران، قائد، راہ نما اور صادق و امین حکام و عمّال اور ناظمین کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ان قائدین، ناظمین اور حکّام و عمّال کی صلاح(goodness) اور فساد(dishonesty) پر ہی عوام الناس اور معاشرہ کی صلاح و فساد اور خیر و شر کا انحصار ہے۔

موجودہ زمانہ میں دنیا بھر میں جہاں بھی شر و فساد کے منابع ہیں، جہاں سے شرپھوٹتا، پھیلتا اور پھیلایا جاتا ہے آپ غور سے دیکھیں کہ وہاں کی حکومتوں کا ادارتی نظام خلافتِ الٰہیہ کے بنیادی اصولوں سے انحراف پر قائم ہوتا ہے۔ وہاں خوف خدا، تقویٰ، پر ہیز گاری، اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے اور جوابدہ ہونے کا تصور نہیں ہوتا۔ ان ملکوں کی سیاست، معیشت، معاشرت اور اخلاقی اقدار عالم انسانیت کے لئے انسانی خواہشات کے وضع کردہ اصولوں اور قواعد و ضوابط کے تابع، اور اپنے قومی، نسلی و ملکی مفادات کے لیے مختص ہوتی ہے۔ ایسا ادارتی نظام کائناتی اور آفاقی ادارتی نظام کے مطابق ’’عدل‘‘ پر مبنی نہیں ہوتا ہے بلکہ اِس کی بنیاد’’ناانصافی‘‘پر قائم ہوتی ہے۔

ریاست(state) اور حکومت (government) ملک میں قائم مختلف سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، عمرانی، عدالتی اور عسکری اداروں کے مجموعہ کے مرّکب سے بنتی ہے۔ عام ریاستوں اور اسلامی ریاستوں کے درمیان ایک واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں سب ادارے اللہ تبارک وتعالیٰ کی امانت ہوتے ہیں۔ ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے مطابق پوری کرنا اور اللہ کی رضاکے مطابق اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنا سب’’امانت‘‘ ہیں۔

اسلامی ممالک میں حکمرانی کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرنے والی عوام پر پہلے اس بات کا تعین لازم ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے حکم کی اطاعت کر کے اللہ کی پارٹی کے لوگ بنیں گے اوراپنی حکومت کو چلانے کے لیے نیک،صالح،اہل اور امانتدار افراد کا انتخاب کریں گے۔ یا اس کے برعکس اللہ جل شانہ‘ کے حکم سے انحراف کرتے ہوئے نا اہل ، فاسق و فاجر اور اللہ کی زمین پر فساد پھیلانے والے شیطانی گروہ کے نا اہل افراد کو اسلامی ریاست کی حکمرانی کی اعلیٰ ترین امانت سپرد کریں گے اور شیطان کی پارٹی کے اراکین بن کر شیطان کی اطاعت اور پوجا کریں گے۔

ضابطہ اہلیت، قرآن کی روشنی میں

قرآن حکیم ہمیں ’’اہلیت‘‘ کے حوالے سے مزید درج ذیل اہم نکات کی طرف متوجہ کرتا ہے:

  1. مناصبِ حکومت یا اقتدار کا کوئی بھی عہدہ؛ چاہے وہ حکومت کا ہو یا کسی ادارے کا، یا کسی جماعت اور تنظیم کا، سراسر امانت ہے۔ کسی کی ملکیت یا وراثت نہیں۔
  2. امانتِ اقتدار(Authority) کے اصل حامل حکمران نہیں بلکہ عوام ہیں۔ یہ امانت، حق رائے دہی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عوام کو عطا کی گئی ہے۔
  3. قیام اقتدار (government)بلا استثنیٰ تمام لوگوں کے حق رائے دہی(voting rights) کے استعمال سے (بغیر کسی لالچ،دھونس، دھمکی) عمل میں آنا چاہیے کیونکہ امانتیں سپرد کرنے کا حکم عوام کو دیا گیا ہے۔ اس لیے یہ ان کا حق ہے کہ کس کو منصبِ حکومت کے لیے منتخب کریں۔ کوئی شخص کسی بھی طور طریقے سے عوام سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ یہ حق غصب نہیں کر سکتا ہے۔ اس لیے اسلامی حکومت کا صحیح معنوں میں’’نمائندہ اور منتخبہ حکومت‘‘ہونا اشد ضروری ہے۔
  4. مسند حکومت(public offices) کے لیے صرف اہل اور حقدار افراد کو ہی منتخب کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کا یہ ضابطہ حکومت کے تمام اداروں کے حکام و عمّال اور اسلامی ریاست کے تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور تنظیمات پر یکساں لاگو ہو گا۔ ہر کس و ناکس اور بے علم اور بے عمل شخص قیام اقتدار کے لیے عاقل و بالغ ہونے کی بنا پر اپنا ووٹ تو استعمال کر سکتا ہے لیکن بطور نمائندہ متنخب نہیں ہو سکتا۔ گویا نمائندے کے لیے علم و عمل کے لحاظ سے اہلیت اور قابلیت کی شرط ناگزیر ہے۔
  5. قیام اقتدار عوام اور نمائندوں کے درمیان ایک قابل تنسیخ معاہدہ ہے جس کی شرائط کا پورا کرنا فریقین پر فرض ہے۔
  6. منصبِ حکومت پر فائز ہونے کے بعد حکّام اور عمّال کے ذمے عدل و انصاف کا قائم کرنا لازم آتا ہے۔ جس کی خلاف ورزی سے وہ امانتِ اقتدار کو سنبھالے رکھنے کے اہل نہیں رہتے۔
  7. جو لوگ حکام کو امانتِ اقتدار سنبھالنے کے لیے منتخب کرتے ہیں، وہی انہیں انحراف کی صورت میں عہدے سے معزول بھی کر سکتے ہیں۔
  8. حاکم(rulers, office bearers) اور محکوم(subordinates) دونوں کا اللہ تعالیٰ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قانون کے یکساں طور پر تابع ہونا لازم ہے۔
  9. حکّام کی اطاعت مشروط(conditional) ہوتی ہے۔ اگر وہ خود اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے تابع نہ رہیں تو عوام پر ان کی اطاعت فرض نہیں رہتی۔
  10. عوام کو حکام سے اختلاف کرنے بلکہ نزاع (dispute) کا بھی حق حاصل ہے، عوام کو تنقید (Criticism) اور مواخذے (accountability) کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کو ان کے اس حق سے محروم کرنا سب سے بڑا سیاسی ظلم اور احکام قرآنی کی صریح خلاف ورزی ہے۔
  11. عوام اور حکام کے درمیان اختلاف کی صورت میں کسی کی رائے بھی خصوصی طور پر فائق یا رعایت یافتہ نہیں ہوتی۔
  12. ہر نزاعی معاملے(matter of dispute) میں آخری سند اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے۔ قرآن و سنت کو آئینی اور دستوری طور پر حتمی اور قطعی درجہ حاصل ہے اور ہر کوئی اس کا پابند ہے بلکہ قرآن و سنت کی حیثیت ،ریاستی دستور سے بالا تر ہوتی ہے۔

ہوس اقتدار اور آمریت پر مبنی نظام حکومت، انجام کار تباہی کا باعث ہوتا ہے۔ جب کہ قرآن و سنت کے احکام پر مبنی سیاسی اور دستوری ضابطہ ہی اجتماعی بہتری اور قومی صلاح و فلاح کا ضامن ہے۔ اگر قومی سطح پر سیاسی زندگی کی اصلاح قرآنی لائحہ عمل اور اسلامی سیاسی و دستوری ضابطے کے مطابق کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ قومی زندگی شاندار سیاسی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو۔

کارکنان کے فرائض منصبی

ریاست کے سربراہ اور حکمران کی طرح ہر ادارے کا ایک سربراہ اور ادارتی نظام کو چلانے کے لیے حکام و عمّال کا ایک تنظیمی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ ادارہ میں کام کرنے والوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ درج ذیل نکات کو سمجھیں اور ان کے مطابق اپنے امور کو سرانجام دیں۔ ان نکات کا ایک معتمد کارکن کے لیے بخوبی سمجھنا اور ان کے مطابق عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔مقصد اور غایت کے حصول کے لیے مشترکہ جِدوجُہد کے دوران درج ذیل امور کو جاننا اور ان پر عمل لازم ہے:

  1. ذمہ داری اور اس کا قوی احساس
  2. ذمہ داری اٹھانے کی اہلیت(capability)
  3. امانت(trust)
  4. دیانت(Honesty)
  5. ادارہ کے قیام کی غرض و غایت کا فہم اور سمجھ
  6. مقصد کی تکمیل کے لیے کام کرنے کی لگن، جذبہ اور شوق
  7. اجتماعی عدل کا فہم 8۔ تنظیم سازی
  8. منتخب عملہ کے پسندیدہ اوصاف اور ناپسندیدہ مواصفات (negative attitudes) سے احتراز
  9. تنظیمی و انتظامی ناظمین اور کارکنان کی تعمیر شخصیت اور مناسب تربیت کا اہتمام
  10. تفویض اختیارات (Authority)
  11. ذمہ داران کی کارکردگی کی جانچ پڑتال
  12. ذمہ داران کے اعزازیہ اور ترقی کا باقاعدہ طریق کار
  13. حقوق و اختیارات اور اس کے منابع
  14. دعوت و ترغیب(invitation and motivation)
  15. دعوت کا طریقہ کار اور داعی کی شخصیت
  16. ترغیبی روّیہ، عمل اور کامیاب ترغیبی نظام
  17. موثر ابلاغ کاری(effective communication)
  18. انسانی نفسیات اور انسانی ضرورتوں کا ادراک
  19. سینئرز کی شخصیت، تجربہ اور مہارت سے فائدہ اٹھانا
  20. ذاتی روّیوں(behaviours) کا تجزیہ
  21. اپنے ساتھ کام کرنے والے دعوتی احباب کے روّیوں اور مہارت کی تشخیص اور ان کی تربیت
  22. شفافیت فکر(clear thinking)
  23. ادارہ کی ترقی کے لیے ہمہ وقت سوچنا اورپوری مستعدی سے اصلاحات پر عمل کرنا
  24. ریفریشر کورسز اور توسیعی لیکچرز
  25. ذاتی اور تنظیمی کردار کی نشوونما
  26. قیادت(leadership) کی اہمیت و ضرورت
  27. رہبراور راہنمابننا اور حاکم بننے سے گریز، (To be a leader and not a Boss) راہ نما اور حاکم کا ماتحت عملہ سے تخاطب کے وقت لب و لہجہ کا فرق یہ ہوتا ہے کہ حاکم کہتا ہے’’ چلو‘‘اور راہنما کہتا ہے’’آؤ، چلیں‘‘
  28. اچھے منتظم کے اوصاف
  29. منظم و مرّتب قیادت اور غیر منظم و بے ترتیب اور وقتی قیادت میں فرق
  30. مسائل سے نبرد آزما ہونا
  31. اتفاق رائے کی برکات
  32. منظم اجلاس کی خوبیاں
  33. اجلاس کو بہتر بنانے کے طریقے
  34. کامیاب مذاکرات، مفید گفت و شنید
  35. تنظیم سازی کے بنیادی عناصر و راہ نما اصول
  36. تحریکیت پیدا کرنے کے خاص اعمال
  37. منصوبہ سازی و حکمت عملی، نفاذ کا طریقہ
  38. ادارہ میں سیاست کاری سے پرہیز
  39. بےجا طاقت و قوت کے مظاہرے سے احتراز
  40. ذاتی محاسبہ
  41. مخاطبین کے ساتھ موثر گفتگو کے طریقے
  42. بدحواسی اور گھبراہٹ پر قابو حاصل کرنے کے طریقے
  43. درپیش مسائل کا حل اور موثر فیصلہ کاری
  44. اخراجات پر کڑی نظر، بے جا اسراف سے احتراز اور آمدن کے ذرائع بڑھانے پر توجہ
  45. ٹیم بلڈنگ کی تشکیل کے طریقے
  46. مسائل کی بروقت نشاندہی اور ان کا معقول حل
  47. ذاتی رنجشوں سے ادارہ کو محفوظ رکھنا
  48. نظام الاوقات کی پابندی کرنا
  49. دورہ جات کی اہمیت اور ضرورت
  50. دورہ جات کی رپورٹس پر کاروائی اور منصوبوں میں وقت اور حالات کے ساتھ تغیر و تبدّل کی اہمیت
  51. اچھی رپورٹنگ کی اہمیت اور ضرورت
  52. معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس اور معاشرتی احتساب
  53. اخلاقیات(ethics and manners)کی اہمیت، اسلامی ادارہ کے کارکنوں کاخصوصی اخلاق
  54. بدعنوانی کے معمولی الزامات کے بھی سنگین اثرات کا شدید احساس
  55. ضابطہ اخلاق اور اس کا باقاعدہ مطالعہ(check list of behavioural- norms)

یہ سب اعمال و افعال ادارہ میں کسی بھی تنظیمی اور انتظامی سطح پر کام کرنے والے قائدین، ناظمین اور معتمد کارکنوں کے لیے لازم اور ادارتی نظام کو کامیابی سے چلانے کے ضامن ہوتے ہیں۔

انسانی تاریخ کی ابتداء سے لے کر موجودہ دور تک ادارہ(institute) اور ادارتی فکر (institutional thought) کا بنی نوع انسان سے گہرا تعلق رہا ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں تحریری یا غیر تحریری شکل میں ادارتی نظام کا مقصد انسان کونظم و ضبط کی زندگی بسر کرنے کا خوگر بنانا ہے۔ اگر ہم درج بالا امور کو ذہن میں رکھیں گے تو ادارہ کے قیام کے مقاصد کے حصول اور اپنے فرائض منصبی کی احسن انداز میں تکمیل کو ہر صورت ممکن بناسکتے ہیں۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، ستمبر 2016

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top