پر امن لوگ ہیں، طاقت استعمال ہوئی تو چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، مجبور کیا گیا تو جواب دینگے: ڈاکٹر طاہرالقادری
ایکشن کمیٹی کا اہم اجلاس 16 جنوری کو ہوگا، 17 جنوری کے احتجاج میں آئندہ کا لائحہ عمل آئے گا
فیصلے ’’جوائنٹ اونرشپ‘‘سے ہورہے ہیں، احتجاج انصاف کے لیے ہے، جسٹس نجفی کمیشن نے شہباز شریف حواریوں کوذمہ دار ٹھہرایا
نواز شریف نے شیخ مجیب کو نظریاتی لیڈر مان لیا، پاکستان کے ٹکڑے کرنیکا کا خیال بھی کرنیوالا ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیگا
گاڈ فادراٹلی کا حکمران نہ بن سکا شریف برادران ان سے آگے ہیں، سسیلین مافیا کے بانی زندہ ہوتے تو ان کی شاگردی کرتے
لاہور (15 جنوری 2018) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری، عمران خان کے ساتھ تفصیلی بات چیت ہوئی، مقصد کے حصول کے لیے ساتھ ہونگے، قوی امید ہے تمام جماعتوں کی مرکزی قیادت 17 جنوری کے احتجاج سے خطاب کرے گی، 17 جنوری کے بعد لائحہ عمل کا اعلان ’’جوائنٹ اونرشپ‘‘ کیساتھ ہوگا، ایکشن کمیٹی کا اہم اجلاس 16 جنوری کو مرکزی سیکرٹریٹ میں ہو رہا ہے، اجلاس میں اہم فیصلے ہونگے، جسٹس باقر نجفی کمیشن نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار شہباز شریف اور حواریوں کو ٹھہرایا، وہ پارٹی راہنماؤں سے ملاقات کے دوران گفتگو کر رہے تھے۔
سربراہ عوامی تحریک نے ایم این اے جمشید دستی سے ٹیلی فون پر ان کی ہمشیرہ کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا، ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ آج تک بد امنی کی نہ آئندہ کریں گے، ہمارا احتجاج پر امن اور انصاف کے حصول کے لیے ہے، ہمارے خلاف طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، جواب دینے پر مجبور کیا گیا تودیں گے، اکیلے نہیں ہیں دیگر جماعتیں بھی ساتھ ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ نواز شریف نے شیخ مجیب الرحمن بننے کا اعلان کرکے اسے اپنا نظریاتی لیڈر مان لیا اور کہہ دیا کہ وہ پاکستان کو توڑنے کے عمل کا حصہ بنیں گے اور جو روک سکتا ہے روک لے، انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کے ٹکڑے کرنے کا خیال کرنے والا خود ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، یہ اپنے بنائے ہوئے نظام کے تحت پھانسی چڑھیں گے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی طرف سے انہیں ’’گاڈ فادر‘‘ اور ’’سسیلین‘‘مافیا سے تشبیہ دی گئی مگر میری دانست میں یہ ان سے آگے ہیں، سسیلین مافیا کوسسلی اور گاڈ فادر کو اٹلی کی حکومت نہ مل سکی، انہوں نے تو طویل ترین عرصہ حکومت کی، سسیلین مافیا اور گاڈ فادر زندہ ہوتے تو وہ ان کی شاگردی اختیار کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بنائے سسٹم نے خواتین، بچوں کو عزت اور زندگی سے محروم کیا، عورتوں کو بیوہ کیا، بچوں کو یتیم کیا اب یہ اسی سسٹم کے تحت سزا بھگتیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ انصاف کی فراہمی کے راستے میں 1860 کے پرانے اور فرسودہ قوانین حائل ہیں اور قوانین بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے، انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے ایک نااہل، خائن اور بدعنوان کو پارٹی صدر بنانے کے لیے قانون سازی کر لی، اگر ان کی ترجیحات میں انصاف کی فراہمی ہوتی تواس پر قانون سازی کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اشرافیہ کا اقتدار آخری سانسیں لے رہا ہے۔
تبصرہ