اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وقت کی قدر و قیمت
تحریر : حافظ فرحان ثنائی (ریسرچ سکالر فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)
دنیا کی زندگی اور اس کا مال و اسباب عارضی اور فانی ہے۔ ہر نفس نے یہاں اپنی مقررہ مدت گزارنے کے بعد دارہ آخرت کو کوچ کرنا ہے جو مستقل اور ابدی ٹھکانہ ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت برحق ہے۔ اس عقیدہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم اس دنیا میں غفلت کی زندگی گزاریں تو نہایت تعجب کی بات ہے۔ یاد رکھیں کہ زندگی کی صورت میں جو ’وقت‘ ہم گزار رہے ہیں اس کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ وقت ایک ایسی چیز ہے جسے آپ کسی بھی کرنسی کے عوض خرید نہیں سکتے۔ یہ انسان کا ایسا محفوظ سرمایہ ہے جو اہس کو دنیا اور آخرت میں نفع دیتا ہے۔ دنیا میں انسان اگر کسی قیمتی چیز کو کھو دے تو امید ہوتی ہے کہ وہ چیز شاید اہسے پھر کبھی مل جائے اور بعض اوقات اہسے مل بھی جاتی ہے لیکن وقت ایسی چیز ہے جو ایک بار گزر جائے تو پھر اس کے واپس آنے کی ہرگز امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔
بحیثیت مسلمان ہمیں باقی مذاہب کے ماننے والوں سے بڑھ کر وقت کی قدر کرنا چاہیے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ دنیوی زندگی، آخرت کے لئے کھیتی کی مانند ہے۔ ہم اس میں جو بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے۔ اگر ہم اس زندگی میں اپنے وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے بھلائی، خیر اور حسنات کے بیج بونے میں صرف کریں گے تو کل یوم قیامت ہمیں فلاح و نجات کا ثمر ملے گا :
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِO
(الحاقة، 69 : 24)
’’(اُن سے کہا جائے گا:) خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اَعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ (زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھےo‘‘
اس کے برعکس اگر اس زندگی میں وقت کی قدر نہ کی جائے اور اسے غفلت، سستی و کاہلی میں گزارتے ہوئے برائی، شر اور سیئات کی نذر کر دیا جائے تو پھر مایوسی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا :
أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍO
(فاطر، 35 : 37)
’’(ارشاد ہوگا:) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ سوچ سکتا تھا اور (پھر) تمہارے پاس ڈر سنانے والا بھی آچکا تھا، پس اب (عذاب کا) مزہ چکھو سو ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہ ہوگاo‘‘
یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جس کے باعث اسلام میں وقت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اہسے ضائع کرنے کے ہر پہلو کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ زیرِ نظر مضمون کا مقصد تحریر بھی یہی ہے کہ ہمارے اندر وقت کی قدر و منزلت اجاگر ہو اور ہم ہر ساعت کو بہتر طریقہ سے گزارنے کے قابل بن جائیں تاکہ ہمیں دنیا اور آخرت کی فوز و فلاح نصیب ہو۔
1۔ قرآن کی روشنی میں وقت کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے جس سے وقت کی بے پناہ اہمیت اجاگر ہوتی ہے کیونکہ اللہ عزوجل کبھی بھی کسی کمتر چیز کی قسم نہیں کھاتے۔
1۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر میں ’وقتہ فجر اور عشرۂ ذوالحجہ‘ کی قسم کھائی ہے :
وَالْفَجْرِO وَلَيَالٍ عَشْرٍO
(الفجر، 89 : 1 - 2)
’’اس صبح کی قَسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی)o اور دس (مبارک) راتوں کی قَسمo‘‘
2۔ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی قسم بھی کھائی ہے، ارشاد ہوتا ہے :
وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىO وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىO
(الليل، 92 : 1 - 2)
’’رات کی قَسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے)o اور دن کی قَسم جب وہ چمک اٹھےo‘‘
3۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحیٰ میں ’چاشت کے وقت اور رات‘ کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
وَالضُّحَىO وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىO
(الضحيٰ، 93 : 1 - 2)
’’قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)o اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائےo‘‘
4۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں ’زمانہ کی قسم‘ کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
وَالْعَصْرِO إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍO
(العصر، 103 : 1 - 2)
’’زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے) بیشک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)‘‘
مذکورہ تمام آیاتہ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے فجر، صبح، چاشت، رات، دن اور زمانہ کی قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول ہے کہ وہ ہمیشہ کسی غیر معمولی شے پر قسم کھاتا ہے۔ لہٰذا ان آیات میں جو اس نے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ان کے ذریعے درحقیقت ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اپنی زندگی کے اوقات کو معمولی اور حقیر نہ سمجھو، اس کے ایک ایک لمحہ کا تم سے حساب ہونا ہے۔
2۔ احادیثہ مبارکہ کی روشنی میں وقت کی اہمیت
احادیثہ مبارکہ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقت کی اہمیت کو بیحد اجاگر کیا ہے۔
1۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرمایا :
نہعمَتَانہ مَغْبہونٌ ہہيهہمَا کَثہيرٌ مہنَ النَّاسہ : الصہّحَّةہ وَالْہَرَاغہ.
( بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب لا عيش إلا عيش الآخرة، 5 : 2357، رقم : 6049)
( ترمذي، السنن، کتاب الزهد، باب الصحة والفراغ. . . ، 4 : 550، رقم : 2304)
’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں : صحت اور فراغت۔‘‘
اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغت اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی ہیں اور ان کو کبھی زوال نہیں آنا حالانکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔ جو ربہ کائنات ان عظیم نعمتوں سے نوازنے والا ہے وہ ان کو کسی وقت بھی چھین سکتا ہے لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر استعمال میں لانا چاہیے۔
2۔ حضرت ابو بَرزَہ اَسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرمایا :
لَا تَزہولہ قَدَمَا عَبْدہ يَوْمَ الْقہيَامَةہ حَتَّی يہسْأَلَ : عَنْ عہمْرہهہ ہہيْمَا أَہْنَاهہ، وَعَنْ عہلْمہهہ ہہيْمَ ہَعَلَ، وَعَنْ مَالہهہ مہنْ أَيْنَ اکْتَسَبَهہ وَہہيمَ أَنْہَقَهہ، وَعَنْ جہسْمہهہ ہہيمَ أَبْلَاهہ.
(ترمذي، السنن، کتاب صہة القيامة والرقائق، باب ما جاء ہي شأن الحہساب والقہصاص، 4 : 612، رقم : 2417)
’’قیامت کے دن بندہ اس وقت تک (اللہ کی بارگاہ میں) کھڑا رہے گا جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا : 1۔ اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری، 2۔ اس نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا، 3۔اس نے مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا۔ 4۔اس نے اپنا جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔‘‘
قارئینہ کرام! کیا ہم یوم قیامت اللہ رب العزت کے حضور اپنی زندگی، علم، مال اور جسم کے بارے میں سوالات کے جواب دینے کو تیار ہیں؟ کیا ہم اللہ عزوجل کی طرف سے عطا کردہ ان نعمتوں کا حق ادا کر رہے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے احوالہ حیات کا جائزہ لینا ہوگا اور پھر درستگی کی طرف آنا ہوگا۔ اسی صورت میں ہم قیامت کے روز اللہ پاک کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ سکیں گے۔
3۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرمایا :
إنْ قَامَتہ السَّاعَةہ وَبہيَدہ أَحَدہکہمْ ہَسہيلَةٌ، ہَإہنہ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَقہوْمَ حَتَّی يَغْرہسَهَا ہَلْيَہْعَلْ.
(أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 191، رقم : 13004)
’’اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لئے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہئے۔‘‘
اندازہ کیجیے کہ شارع اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے متبعین کو کس قدر وقت کی اہمیت اور اعمال صالحہ کا احساس دلا رہے ہیں کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور کوئی اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی ذرا بھر نیکی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس میں بھی غفلت کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ فوراً نیکی کر ڈالے۔
4۔ حضرت مَعقہل بن يَسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرمایا :
لَيْسَ مہنْ يَوْمہ يَأْتہي عَلَي ابْنہ آدَمَ إلَّا يہنَادہي ہہيْهہ، يَا ابْنَ آدَمَ، أنَا خَلْقٌ جَدہيدٌ، وَأَنَا ہہيْمَا تَعْمَلہ عَلَيْکَ غَدًا شَهہيْدٌ، ہَاعْمَلْ ہہيَّ خَيْرًا أشْهَدہ لَکَ بہهہ غَدًا، ہَإہنہّي لَوْ قَدْ مَضَيْتہ لَمْ تَرَنہي أبَدًا، قَالَ : وَيَقہولہ اللَّيْلہ : مہثْلَ ذَلہکَ.
(أبو نعيم أصبهاني، حلية الأولياء، 2 : 303)
’’اولادہ آدم پر ہر نیا آنے والا دن (اسے مخاطب ہوکر) کہتا ہے : اے ابن آدم! میں نئی مخلوق ہوں، میں کل (یوم قیامت) تمہارے عمل کی گواہی دوں گا پس تم مجھ میں عملہ خیر کرنا کہ میں کل تمہارے حق میں اسی کی گواہی دوں، اگر میں گزر گیا تو پھر تم مجھے کبھی بھی دیکھ نہیں سکو گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی طرح کے کلمات رات بھی دہراتی ہے۔‘‘
اتنے واضح فرامین جاننے کے بعد بھی اگر کوئی مسلمان غفلت کا مظاہرہ کرے اور اپنے دن و رات کو کھیل کود، فضول گپ شپ، کھانے پینے، ہوٹلنگ، سیر و سیاحت، گھومنے پھرنے اور سونے میں گزار دے تو اس پر سوائے حیف کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کسی صاحب حکمت کا بڑا خوبصورت قول ہے :
إن الليل والنهار يعملان ہيک ہاعمل ہيهما.
(قرشي، مکارم الأخلاق، 1 : 29)
’’رات اور دن تجھ پر عمل کر رہے ہیں تو بھی ان میں عمل کر۔‘‘
5۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ہرمایا:
اغْتَنہم خَمْساً قَبْلَ خَمْسہ : شَبَابَکَ قَبْلَ هَرَمہکَ، وَصہحَّتَکَ قَبْلَ سہقْمہکَ، وَغَنَاءَکَ قَبْلَ ہَقْرہکَ، وَہَرَاغَکَ قَبْلَ شہغْلہکَ، وَحَيَاتَکَ قَبْلَ مَوْتہکَ.
(حاکم، المستدرک، 4 : 341، رقم : 7846)
’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو : بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، محتاجی سے پہلے تونگری کو، مصروفیت سے پہلے فراغت کو اور موت سے پہلے زندگی کو۔‘‘
حدیث مبارکہ میں زندگی کے چار احوال جوانی، صحت، غناء اور فراغت، کی طرف خصوصی اشارہ کرنے کے بعد ساری زندگی کو موت کے مقابل رکھ دیا گیا ہے۔ جس طرح جوانی کے بعد بڑھاپے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صحت کے ساتھ بیماری سے واسطہ پڑتا ہے، امیری کے ساتھ ہقیری لاحق ہوتی ہے اور ہراغت کے ساتھ مصروہیت بھی گھیرتی ہے اسی طرح انسان کو دنیاوی حیات کے بعد موت کا بھی سامنا کرنا ہے۔ اب یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں جوانی، صحت، تونگری اور ہراغت کے تمام اوقات کو کس طرح بسر کرتا ہے؟ زندگی کے یہ تمام لمحات انسان کے آنے والے احوال پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جوانی، صحت، غناء، فراغت اور ساری زندگی اگر ہم مثبت سرگرمیوں اور خیر کے کاموں میں صرف کریں گے تو لازمی بات ہے کہ ہماری دنیا و عقبیٰ بہتر ہوگی لیکن اگر ہم نے اہن گرانقدر اوقات کی قدر نہ کی تو یقیناً پھر ہمیں ہی اس کے نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اس لئے اللہ رب العزت نے مؤمنوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ہرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَO وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَO
(الحشر، 59 : 18 - 19)
’’اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئیے کہ اس نے کل (قیامت) کے لئے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہوo اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھلا بیٹھے پھر اللہ نے اُن کی جانوں کو ہی اُن سے بھلا دیا (کہ وہ اپنی جانوں کے لئے ہی کچھ بھلائی آگے بھیج دیتے)، وہی لوگ نافرمان ہیںo‘‘
3۔ اقوال و احوالِ اکابرین کی روشنی میں وقت کی اہمیت
صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ کبار رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے وقت کی حقیقی معنی میں قدر کی، تبھی تو صدیاں گزرنے کے باوجود وہ تاریخ کے اوراق میں زندہ ہیں۔ وقت کی اہمیت پر ان عظیم ہستیوں کے چند اقوال اور احوال ملاحظہ ہرمائیں۔
1۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے :
أني لأمقت الرجل أن أراه ہارغًا، ليس ہي شيء من عمل الدنيا ولا عمل الآخرة.
(ابن ابي شيبة، المصنہ، 7 : 108، رقم : 34562)
’’بے شک مجھے اس فارغ شخص سے نفرت ہے جسے کسی دنیاوی اور اخروی عمل کی پرواہ نہیں۔‘‘
2۔ انسان اپنی زندگی کا سال گزرنے پر سالگرہ منعقد کرکے خوشی مناتا ہے کہ اس کی عمر پچیس سال، چالیس سال یا ساٹھ سال ہوگئی ہے لیکن اسے معلوم نہیں ہوتا کہ ہر گزرنے والی ساعت اسے موت کے نزدیک کر رہی ہے۔ سال گزرنے کے بعد تقریب کرنے کا حق اسے پہنچتا ہے جو سال بھر زندگی کی ہر سانس امانت سمجھ کر اس کا حق ادا کرتا رہا ہو ورنہ بے کار و بے مقصد زندگی گزارنے والوں کو تو سال کے آخر میں افسوس کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی چاہئے۔ مدعا یہ ہے کہ زندگی ضائع ہونے پر تشویش ہونی چاہئے مسرت و شادمانی کی کیفیت نہیں لیکن ہم ہیں کہ سال کے سال ضائع کرتے ہیں اور س پر خوشیاں بھی مناتے ہیں۔ اس پر حضرت ابودَرداء رضی اللہ عنہ ہرماتے ہیں :
ابن آدم، أنت أيام ہکلما ذهب يوم، ذهب بعضک.
(بيهقي، شعب الإيمان، 7 : 381، رقم : 10663)
’’اے ابنِ آدم! تفو ایام کا مجموعہ ہے، پس جب (تیرا) کوئی دن گزرتا ہے تو تیرا (زمانۂ حیات کا) کچھ حصہ ڈھلتا ہے۔‘‘
مذکورہ قول میں انسان کو اس زندگی کی حقیقت سے روشناس کرایا گیا ہے۔ انسان چند لمحات پہلے زندگی کی لذتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے لیکن دفعت ہرشتۂ اَجل آتا ہے اور اس کی زندگی کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
3۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
أدرکت أقواماً کان أحدهم أشح علي عمره منه علي دراهمه ودنانيره.
(ابن مبارک، الزهد، 1 : 4، رقم : 8)
’’میں نے ایسے لوگوں کا زمانہ پایا ہے جن میں سے ہر ایک درہم و دینار کی نسبت اپنی (طاعت و عبادت کی مجاہدانہ) زندگی کو زیادہ ترجیح دیتا تھا۔‘‘
ہمیں اپنی زندگی کی قدر کرتے ہوئے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری ہر آنے والی ساعت، گزری ہوئی ساعت سے بہتر ہو۔ اس طرح ساعتوں کی بہتری سے منٹ بہتر ہوں گے اور منٹوں کے بہتر ہونے سے گھنٹے بہتر ہوں گے اور گھنٹوں کے بہتر ہونے سے دن بہتر ہوں گے اور دنوں کے بہتر ہونے سے ہفتے بہتر ہوں گے اور ہفتوں کے بہتر ہونے سے مہینے بہتر ہوں گے اور مہینوں کے بہتر ہونے سے سال بہتر ہوں گے۔ یوں ہماری زندگی کی ہر گھڑی خیر و فلاح پر مبنی گزرے گی۔
4۔ صوفی کبیر حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ روٹی کا چورہ بنا کر کھایا کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتاتے :
بين سَہہّ الہَتہيْت وأکل الخہبز قراءة خمسين آية.
(ابن جوزي، صيد الخاطر، 1 : 489)
’’چورا بنا کر کھانے سے روٹی کھانے کی نسبت پچاس آیاتہ مبارکہ کی تلاوت کرنے جتنا وقت بچتا ہے۔‘‘
5۔ صوفی مجاہد حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بعض لوگ دیر تک بیٹھے رہے تو آپ نے انہیں فرمایا :
إن ملک الشمس لا يَہْتہر ہي سوقها أہما تريدون القيام.
(ابن جوزي، صيد الخاطر، 1 : 489)
’’بے شک سورج پر متعین فرشتہ اس کو چلانے سے نرم نہیں پڑا (کہ اہس نے سورج کو روک دیا ہو یا آہستہ کر دیا ہو) سو تمہارا کب تک اٹھنے کا ارادہ ہے؟‘‘
6۔ معروف محدّث امام عبدالرحمن بن ابی حاتم سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے اپنے والد سے رفواۃ کے بارے میں کثیر سماع کیا ہے اور ان سے کثرت سے سوالات کئے ہیں۔ اتنے مختصر وقت میں یہ کیسے ممکن ہوا؟ امام ابن ابی حاتم نے جواب دیا :
ربما کان يأکل وأقرأ عليه، ويمشي وأقرأ عليه، ويدخل البيت في طلب شييء وأقرأ عليه.
(ابن عساکر، تاريخ مدينة دمشق، 52 : 12)
’’اکثر اوقات ایسے ہوتا تھا کہ میرے والد کھانا کھا رہے ہوتے تو میں ان پر قرات کرتا، وہ کہیں آ جا رہے ہوتے تب بھی میں ان پر قرات کرتا اور جب وہ کسی کام کے لئے گھر میں داخل ہوتے تو تب بھی میں ان پر قرات کرتا۔‘‘
امام ابن ابی حاتم نے وقت کا بہترین استعمال کیا جس کا پھل اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ عطا کیا کہ انہوں نے 9 جلدوں پر مشتمل ’’الجرح والتعدیل‘‘ تصنیف کر دی، 10 جلدوں پر مشتمل ’’تفسیرِ قرآن‘‘ تصنیف فرمائی اور ایک ہزار اجزاء پر مشتمل ’’کتاب السند‘‘ تشکیل دیدی۔
7۔ معروف مفسر اور مورخ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ ابوالمظہر یحییٰ بن محمد بن ھبیرہ فرمایا کرتے تھے :
والوقت أنہس ما عہنہيتَ بحہظه وأراه أسهل ما عليک يَضہيع
(ابن عماد حنبلي، شذرات الذهب، 4 : 195)
’’وقت وہ قیمتی ترین شے ہے جس کی حفاظت کا تمہیں ذمہ دار بنایا گیا ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ یہی وہ چیز ہے جو تمہارے پاس نہایت آسانی سے ضائع ہو رہی ہے۔‘‘
8۔ امام ابن جوزی کے نواسے ابوالمظہر شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ اپنے نانا جان کے احوال ان ہی کی زبانی بیان کرتے ہیں :
بأصبعي هاتين کتبت ألہين مجلدة، وتاب علي يدي مئة ألہ، وأسلم علي يدي عشرون ألہاً.
(ذهبي، سير أعلام النبلاء، 21 : 370)
’’میں نے اپنی ان دو انگلیوں سے دو ہزار جلدیں لکھی ہیں، میرے ہاتھوں پر ایک لاکھ افراد نے توبہ کی ہے اور بیس ہزار غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا ہے۔‘‘
آگے ابوالمظہر اپنے نانا امام ابن جوزی کا معمول نقل کرتے ہیں کہ
وکان يختم ہي
الأسبوع ولا يخرج من بيته إلا إلي الجمعة أو المجلس.
(ذهبي، سير أعلام النبلاء،
21 : 370)
’’آپ ہر ہفتہ قرآن ختم کرتے تھے اور جمعہ یا کسی اور مجلس میں جانے کے علاوہ گھر سے نہیں نکلتے تھے۔‘‘
وقت کو بہترین استعمال کرنے کا نتیجہ تھا کہ امام ابن جوزی نے تفسیر، حدیث، تاریخ اور دیگر علوم پر بیسیوں کتب تصنیف کر دیں۔
9۔ بے مثل ’التفسیر الکبیر‘ کے مصنف امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کس قدر وقت کا خیال رکھا، فرماتے ہیں :
واﷲ، إنّني أتأسہ ہي الہوات عن الاشتغال بالعلم ہي وقت الأکل، ہإن الوقت والزمان عزيز.
(موہق الدين، عيون الأنباء ہي طبقات الأطباء، 1 : 462)
اللہ رب العزت کی قسم! کھانا کھاتے ہوئے علمی مشغلہ ترک کرنے کی وجہ سے مجھے بہت زیادہ افسوس ہوتا ہے کیونکہ وقت اور زمانہ بڑا نادر سرمایہ ہے۔‘‘
سلف صالحین کے چند احوال اس لئے درج کئے کہ اہن کو پڑھنے سے انسان کے اندر آگے بڑھنے اور کام کرنے کا حد درجہ جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان ان تقویٰ شعار، متقی اور علم دوست حضرات کی زندگیوں کا مطالعہ کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی اس مختصر اور فانی زندگیوں میں عبادت، ریاضت، مجاہدہ اور علم میں ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو ہر آنے والے انسان کے لئے نمونہ ہیں تو ہر قلب سلیم کے حامل شخص کا بے اختیار ان کی پیروی کرنے کو دل چاہتا ہے۔
آپ تاجدار کائنات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیجیے بعثت کے بعد اپنی 23 سالہ حیات مبارکہ میں آپ نے پورے عرب کو ایک ’اللہ کے سامنے‘ جھکنے والا بنا دیا اور چار دانگہ عالم میں اسلام کا پیغام پہنچا دیا۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم کے احوال پڑھیں کہ جہاں انہوں نے مختصر سے وقت میں فتنہ ادعائے نبوت، فتنۂ ارتداد، فتنہ منکرین زکوٰۃ اور فتنۂ خوارج کا قلع قمع کیا وہاں انہوں نے ہی تدوین قرآن، علم و ہنر، معیشت کی مضبوطی اور تقویٰ و طہارت پر گامزن معاشرہ کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ عسکری حوالے سے اسلامی سرحدوں کو یورپ، افریقہ اور ایشیاء وغیرہ کے براعظموں میں دور دور تک پھیلا دیا۔
پھر آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی کے تربیت یافتہ تابعین، تبع تابعین، محدّثین، مفسرین، فقہاء، مجتہدین اور متقین کے حالات کا مشاہدہ کریں۔ ان میں سے بعض عبادت و ریاضت کے اس قدر دلدادہ تھے کہ ساری ساری رات روتے ہوئے نوافل میں اور تلاوت قرآن میں بسر کر دیتے۔ ان میں سے بعض علم و ہنر میں اس قدر آگے بڑھے کہ ان میں سے ہر ایک نے تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، قانون، ادب اور مختلہ علوم و فنون پر بیسیوں کتابیں تصنیف کر ڈالیں۔
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ عبادت و ریاضت اور علم و فن کے حوالے سے سلف صالحین کا نام آج اس لئے زندہ ہے اور ہمارے لئے مشعلہ راہ ہے کہ انہوں نے ’وقت کی قدر‘ کی۔ انہوں نے ہر لمحہ اور ہر ساعت کا صحیح اور عمدہ استعمال کیا۔ ان کے احوال کا مطالعہ ہمارے لئے ’وقت کو بہترین استعمال میں لانے‘ کا موجب بن سکتا ہے۔
مقصد حیات اور وقت کا تقاضا
انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کی زندگی کا مقصد ’’خالق کائنات کی بندگی‘‘ (الذاریات، 51 : 56) قرار دیا گیا ہے۔ یہ ہر انسان کی تخلیق کا مقصد ہے اور جو مسلمان ہو تو اس پر عام انسانوں کی نسبت ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کیونکہ کسی بھی مسلمان کا مقصد خالق کائنات کی بندگی کے ساتھ اپنے رؤف رحیم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں ’’تمام ادیان پر غلبۂ اسلام‘‘ بھی ہو جاتا ہے۔ آپ حضرات اس سے اندازہ کر لیں کہ جو شخص مسلمان بھی ہو اور اس دورہ زوال میں تحریک منہاج القرآن جیسی انقلابی اور تجدیدی تحریک سے بھی وابستہ ہو تو اس کی ذمہ داریاں ایک انسان حتیٰ کہ ایک کلمہ گو سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں کیونکہ اس نے بندگئ الٰہی اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کے ساتھ ’تعلیماتِ اسلام کی تجدید‘ میں بھی حصہ ڈالنا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی نے منہاج القرآن کے قیام کے بعد اپنی ستائیس سالہ زندگی کا لمحہ لمحہ جس ’’مصطہوی انقلاب‘‘ کے نفاذ کے لئے وقف کردیا ہے۔ ہم اس مشن کی قدر کریں اور غفلت بھری زندگی سے توبہ کریں۔ تحریک منہاج القرآن کے ادنیٰ کارکنان کی حیثیت سے ہماری تمام تر کاوشوں، کوششوں اور جدوجہد کا مرکز ’’مصطہوی انقلاب‘‘ کا نفاذ ہے لیکن اگر ہم زبان سے تو یہ نعرہ لگاتے رہیں اور عمل کے اعتبار سے فضول کاموں میں اپنے اوقات کا ضیاع کرتے رہیں تو کیا ہم اپنی منزل پا سکتے ہیں؟ یاد رکھیں کہ قول اور عمل کے اس تضاد کے باعث ہم اس عظیم مقصد کی توہین کر رہے ہوں گے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مصطہوی انقلاب کا سورج اس دھرتی پر طلوع ہو جس کے باعث ہر کسی کو معاشی خوشحالی نصیب ہو، عدل و انصاف میسر ہو، ضروریات زندگی میسر آئیں اور سارا معاشرہ تعلیم یافتہ ہو تو اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں ’’وقت کی قدر‘‘ کرنا ہوگی تب ہی جا کر ہمیں اپنے عظیم مقصد میں کامیابی و کامرانی نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
تبصرہ