شیخ الاسلام کا تصور انقلاب

ڈاکٹر رحیق احمد عباسی

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ مختلف میادین میں اس مقام و مرتبہ پر فائز ہیں کہ ان کی ہم قامت شخصیت، موجودہ دور تو درکنار کئی صدیوں میں نظر نہیں آتی اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ مستقبل میں لکھا جائے گا۔ مجلہ منہاج القرآن کے موجودہ شمارے میں بھی شامل دیگر مضامین میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں اس مضمون میں ہم ان کے تصور انقلاب کا مختصر جائزہ لیں گے۔ تاریخِ فلسفہ ہائے انقلاب میں یہ اعزاز حضور شیخ الاسلام کو ہی حاصل ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ ’’قرآنی فلسفۂ انقلاب‘‘ کو ایک مضمون کی صورت میں پیش کیا۔

ہمارے مضمون کا مقصد قرآنی فلسفہ انقلاب کی تفصیلات قارئین کے سامنے پیش کرنا نہیں اس کے لئے شیخ الاسلام کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب’’ قرآنی فلسفہ انقلاب ‘‘کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس فلسفہ انقلاب کے نمایاں پہلو سامنے لائیں اور آسان زبان میں اس کی انفرادیت کو واضح کریں۔

تصور انقلاب کی بنیاد قرآن مجید

شیخ الاسلام کے تصور انقلاب کی بنیاد قرآن ہے، اس پران کے فلسفہ انقلاب کا نام ہی شاہد و عادل ہے کہ انہوں نے اپنے فلسفہ انقلاب کو قرآنی فلسفہ انقلاب سے موسوم کیا ہے۔ شیخ الاسلام نے قرآن مجیدکا مطالعہ صحیفہ انقلاب کے طور پر کیا اوریہ بات واضح کی قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ قرآن مجید نے واضح طور پر بیان کیا :

تِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ.

(آل عمران، 3 : 140)

’’یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں‘‘۔

مزید برآں مختلف قوموں کی ترقی، عروج و تمکنت کی جدوجہد بھی ایک بدیہی امر ہے اور اس کابیان بھی قرآن مجید نے ان الفاظ میں کیا ہے :

وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا.

(الْحَجّ ، 22 : 40)

’’اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے۔‘‘

جدوجہد انقلاب کے لئے کسی نہ کسی تضاد کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ فلسفہ تضاد کا بانی کارل ماکس کو سمجھا جاتا ہے مگر شیخ الاسلام نے اوپر بیان کردہ آیت اور دیگر قرآنی آیات سے یہ ثابت کیا کہ فلسفہ انقلاب پہلی بار واضح صورت میں قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انقلابی جدوجہد کا بہترین نمونہ

قرآن میں دیئے گئے ہر ضابطہ کی اعلیٰ اور اکمل شکل سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ لہٰذا یہ ہو نہیں سکتا کہ اگر فلسفہ انقلاب کا بیان قرآن مجید نے کیا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس فلسفہ کو عملاً apply نہ کیا ہو اور اس کا بہترین نمونہ امت کے لئے مقرر نہ فرمایا ہو۔ اس تناظر میں شیخ الاسلام کے نزدیک سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دراصل قرآن کے بیان کردہ فلسفہ انقلاب کی بہترین Application ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی انقلابی جدوجہد سے عبارت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا مکی دور دراصل دور ما قبل انقلاب ہے جس میں عظیم تر انقلاب کی تیاری کی گئی۔ ۔ ۔ اور مدنی زندگی دورِ انقلاب ہے۔ ۔ ۔ جبکہ خلافت راشدہ کا دور جو در حقیقت سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ایک باب ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے مصطفوی انقلاب کا دورِ ما بعد انقلاب ہے۔ لہٰذا اگر کوئی قیادت یا جماعت قرآن کے دیے گئے انقلابی طریقہ کار کو اپنانا چاہے تو اُس کے لئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہترین نمونہ ہے۔

مصطفوی انقلاب سے کیا مراد ہے؟

مصطفوی انقلاب سے مراد قرآن و سنت کی عظیم فکر پر مبنی ایسی جدوجہد ہے جو ہرسطح سے باطل طاغوتی اور استحصالی طاقتوں کے اثر ونفوذ کا خاتمہ کر دے۔ شیخ الاسلام نے مصطفوی انقلاب کی جدوجہد تحریک منہاج القرآن کے درج ذیل مقاصد کے حصول کے لیے شروع کی۔

  1. دعوت و تبلیغ حق
  2. اصلاح احوال امت
  3. تجدید و احیائے دین
  4. ترویج و اقامت اسلام

ان چار مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا مصطفوی انقلاب کہلاتا ہے۔

بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں سوال ابھرتا ہے کہ جب تحریک نے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تو مصطفوی انقلاب کا نعرہ بلند کیا اور یہ کہا کہ ہم باطل نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ استحصالی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ اور نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ پاکستان کے نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ اس ساری جدوجہد کے لئے مصطفوی انقلاب صرف اور صرف سیاسی غلبہ کا نام ہے، سیاسی غلبہ کے حصول کا نام ہے۔

یہ ایک غلط فہمی ہے جو تحریک کی فکر کے بغور مطالعہ نہ کرنے کی بناء پر پیدا ہوئی۔ شیخ الاسلام نے جو قرآنی فلسفہ انقلاب دیا اس میں آپ نے ایک اصول دیا جو مسلمہ ہے کہ سیاسی تبدیلی اور غلبہ کا حصول مقدم ہے اوراس سے مراد وہ نہیں جو لیا گیا کیونکہ دعوت و تبلیغ کی کوششیں، اصلاح احوال کی سرگرمیاں اور احیائے دین کی سرگرمیاں نتائج ضرور پیدا کرتی ہیں مگر یہ اتنے نتائج پیدا نہیں کرسکتیں کہ پورے کے پورے معاشرے کو ان دعوتی اور اصلاحی سرگرمیوں سے تبدیل کر دیا جائے اگر آپ پورے معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سیاسی غلبہ ناگزیر ہے۔ سیاسی غلبہ کا جب حصول ہوتا ہے تو اس کے نفاذ کے لئے ایک ایسا نظام پورے معاشرے میں قائم کرتے ہیں کہ پورے کے پورے معاشرے میں اسلامی اقدار قائم ہو جائیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی تین مقاصد کو نظر انداز کر دیا جائے ہاں یہ ضرور ہے کہ سیاسی غلبہ کے حصول سے باقی سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی یہ ہے مقدم ہونے کا مطلب۔ لہٰذا ہمیں یہ واضح رکھنا چاہیے کہ مصطفوی انقلاب کا حصول ان چاروں مقاصد میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔

زوال امت کی تشخیص

شیخ الاسلام کی فکر نے زوال امت کی جو وجوہات بیان کیں وہ درج ذیل ہیں۔

  1. سیاسی فکر میں تغیر
  2. معاشی و اقتصادی فکر میں تغیر
  3. فقہی و قانونی فکر میں تغیر
  4. عمرانی، سماجی فکر میں تغیر
  5. تہذیبی و ثقافتی فکر میں تغیر
  6. دینی و مذہبی فکر میں تغیر
  7. تعلیمی و تربیتی فکر میں تغیر

افکار کے ان میادین میں تبدیلیاں آئی ہیں ان تبدیلیوں میں مختلف افکار اور رسوم نے جگہ لے لی اور وہ حقیقت جو اس کے پیچھے مضمر تھی اُمت مسلمہ کی نظر، عمل، زندگی اور افکار سے غائب ہو گئی۔ شیخ الاسلام نے یہی وہ بنیادی وجوہات بیان کی ہیں جو زوال امت کا سبب بنیں۔ اگر ہم انقلاب بپا کرنا چاہتے ہیں تو تغیر کو ختم کرنا ہو گا۔ ۔ ۔ اور ان سارے میدانوں میں اس فکر کو بحال کرنا ہو گا جو قرآن و سنت کی فکر ہے۔ ۔ ۔ اور اس فکر کو دوبارہ سے زندہ کرنا ہو گا۔ ۔ ۔ اور ان سارے میدانوں میں جو تغیر، زوال اور تبدیلی آگئی اس تبدیلی کو دوبارہ اصل سے بدلنا ہو گا۔ ۔ ۔ جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اس کی اصلاح کرنا ہو گی۔ ۔ ۔ ان اقدامات کے نتیجے میں امت مسلمہ انقلاب کی جانب گامزن ہوگی۔

غلبہ اسلام کا صحیح تصور

اسلام آخری الہامی نظام ہے جو اللہ تبارک و تعالی نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے بنی نوع انسان کو عطا کیا، اب قیامت تک انسانیت کی فلاح و بہبود اسی نظام کو اپنانے میں ہے۔ اسلام کا مقصد دنیا میں غالب ہونا ہے اور اسی مقصد کے لئے بعثت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوئی۔ ارشاد فرمایا :

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ.

(التوبۃ، 9 : 33)

’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے۔‘‘

غلبۂ دین مصطفوی کیا ہے؟ بعض لوگوں نے اس سے مراد دنیا سے تمام ادیان کا خاتمہ لے لیا ہے اور ساری کی ساری انسانیت کو مسلمان بنا دینا یا دنیا سے غیر مسلموں کا خاتمہ سمجھ لیا ہے۔ یہی تصور ان کی گمراہی کا باعث اور پہچان بن گیا۔ ایسے لوگ اور تحریکیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے راستے پر چل پڑیں۔ شیخ الاسلام کے تصور انقلاب میں اس طرح کے خیالات کی گنجائش نہیں۔ یہ سنت الہیہ کے خلاف ہے چونکہ

وَلَوْ شَاءَ اللّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً.

(الْمَآئِدَة ، 5 : 48)

’’اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا۔‘‘

مگر اللہ تعالی نے ایسا نہیں فرمایا اورنہ ہی یہ مشیت قدرت ہے۔

شیخ الاسلام کے نزدیک غلبہ اسلام کا مقصود امن عالم کا قیام ہے اور قرآن مجید میں انقلابی جدوجہد کا حکم دیتے وقت منزل مقصود’’ امن عالم کا قیام‘‘ کو بیان کیا گیا ہے :

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ.

(البقرة، 2 : 193)

’’اور ان سے جنگ کرتے رہو حتیٰ کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے۔‘‘

لہٰذا یہ دین امن ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تاریخ انسانیت کی سب سے بڑی داعی امن ہے۔ ۔ ۔ مسلمانوں کا شعار امن ہے۔ ۔ ۔ اسلام میں نفرت، انتہا پسندی، دہشت گردی اور بے گناہوں کے قتل عام کی کوئی گنجائش نہیں لہٰذا غلبہ اسلام کی جدوجہد میں بھی اس طرح کے رویوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جدید دور میں شیخ الاسلام وہ واحد مفکّر و رہنما ہیں جو ایک انقلابی ہونے کے ساتھ امن، محبت اور بقائے باہمی کے عالمی سفیر بھی ہیں۔

انقلاب کے بنیادی تقاضے

شیخ الاسلام دور جدید کے وہ انقلابی مفکر ہیں جنہوں نے اقامت دین کی جدو جہد اور روحانیت کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔ ان کے نزدیک روحانیت ہی وہ طاقت ہے جس کے بل بوتے پر مسلمان انقلابی جدوجہد کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ روحانیت کی بنیادی منزل معرفتِ الٰہی اور ہر کام لوجہ اللہ کرنا ہے۔ انقلابی جدو جہد کسی دنیاوی مفاد کی بجائے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کی جائے۔ ۔ ۔ اور اقامت دین کو منشائے ایزدی سمجھا جائے۔ ۔ ۔ اور خدمت دین کو توفیقِ الٰہی سمجھا جائے۔ ۔ ۔ یہ وہ اصول ہیں جو انقلابی کارکنوں کو فتح کے لالچ یا شکست کے خوف سے مبرّا کر کے اُسے نڈر بنا دیتے ہیں اور وہ مقصد کے حصول کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ جس طرح روحانیت انقلابیوں کی طاقت ہے اسی طرح شیخ الاسلام نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ جذبہ اور وجہ تحرک قرار دیا ہے جو مسلمان کو انقلابی بنا دیتا ہے۔ بہت سارے جدید انقلابی مفکر جہاں روحانیت سے خالی نظر آتے ہیں وہاں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی کلیتاً نابلد ہوتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے روحانیت، عشق رسول اور انقلاب کو ایک جگہ جمع کر کے اسلام کے دینِ کل ہونے کے تصور کو نئے سرے سے متعارف کروایا۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مسلمان کی رگ و پا میں سما جاتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مقصدِ بعثت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنی زندگی کا مقصد، سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے لیے لائحہ عمل بنا دیتا ہے۔ دین کی زبوں حالی اس کو اس لیے بے قرار کر دیتی ہے کہ اس دین کے عروج اور تمکنت کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے شمار مشکلات اور صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ ۔ ۔ مسلمان کا زوال وانحطاط اس کو اس لیے گوارا نہیں کہ یہ مسلمان اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا اور امتی ہیں۔ لہٰذا عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جذبہ، ایک ولولہ بن کر مرد مومن کو انقلابی بنا دیتا ہے۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انقلاب کا جو تعلق علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں بیان کیا ہے۔ شیخ الاسلام نے اسے ایک مربوط فکری شکل دی اور اس کو ایک تحریک بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کی جدو جہد کا ایک غالب عنصر فروغ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

نتیجہ خیزی کی ضمانت

قرآن مجید نے جہاں گزشتہ اقوام کی ہلاکت و زوال کے اسباب کو بیان کیا وہاں اہل حق کی فلاح یابی کی شرائط اور تقاضوں کو بھی بیان کیا اور اس بات کی واضح ضمانت بھی دی کہ اگر اہل حق ان اوصاف کو عملا اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور نصرت ان کے شامل حال ہو گی اور غلبہ، تمکنت اور ابدی فلاح ان کا مقدر ہو گی جیسا کہ ارشاد فرمایا :

وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَO

(المائدۃ، 5 : 56)

’’اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو (وہی اﷲ کی جماعت ہے اور) اللہ کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں۔‘‘

قرآن مجید قیامت تک تمام انسانیت کے لئے ضابطہ حیات ہے۔ ۔ ۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں اور اسلام کے بعد کوئی دین نہیں ہے۔ ۔ ۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ ۔ ۔ یہی چیز ہمارے ایمان کا حصہ ہونا چاہیے۔ اسلام کا طریقہ کار حق پر مبنی ہے اور قیامت تک جو بھی اس طریقہ کار کو اپنائے گا، کامیابی و کامرانی اس کا مقدر بنے گی لہٰذا کامیابی اور کامرانی انہیں لوگوں کے لیے ہے جو حق پر چلنے والے ہیں۔ وقت کا تعین ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ کامیابی اہلِ حق کی ہو گی، قیامت تک دینِ اسلام نے غالب رہنا ہے اور دوبارہ غالب ہو گا۔ غلبہ، دین اسلام کا مقدر ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسلام کو ہمیشہ کے لئے مغلوب نہیں کر سکتی۔

تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں میں شیخ الاسلام نے یہ چیز پیدا کی ہے کہ وہ کامیابی کے یقین کے ساتھ جدو جہد کریں ان شاء اﷲ کامیابی ہماری ہو گی۔ اس سلسلے میں دو چیزیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں :

  1. ایک یہ کہ وہ ٹیم کامیاب نہیں ہو سکتی جو کامیابی پر یقین نہیں رکھتی۔ ۔ ۔ جو فتح کی امید نہیں رکھتی وہ کبھی بھی جیت نہیں سکتی۔
  2. دوسری بات ٹیم کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ ۔ ۔ اس کے پاس وسائل بھی ہوں۔ ۔ ۔ طاقت بھی ہو۔ ۔ ۔ مگر وہ یہ سمجھے کہ ہم جیتے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ہمیں کوئی ہرا نہیں سکتا تو اتنا over confidence ہو جائے۔ ۔ ۔ اتنا اعتماد مل جائے کہ ہمین کوئی ہرا نہیں سکتا۔ ۔ ۔ یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ ہمیں تو ناکامی ہو ہی نہیں سکتی۔ ۔ ۔ اس صورت میں اعتماد کی زیادتی بھی اس ٹیم کو ہرا دیتی ہے۔

شیخ الاسلام کی فکر یہ ہے کہ نتیجہ خیزی ملے گی، کامیابی ملے گی لیکن یہ تصور کرلینا کہ ہم کامیاب ہی کامیاب ہیں یہ تصور اسلام میں نہیں ہے۔ کامیابی کے لئے محنت اور مقصد پر قائم رہنا شرط ہے۔ جیسا کہ اﷲ نے فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ.

(المائدہ، 5 : 54)

’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے۔‘‘

لہذا اگرکسی تحریک و تنظیم کو یہ اہلیت اور فریضہ دیا گیا تو اس کا یہ فرض ہے کہ جدو جہد کے سارے تقاضے پورے کرتے ہوئے محنت کرے اگر جدوجہد کے تقاضے پورے کیے جائیں گے تو کامیابی ضرور بالضرور ملے گی۔

قبل از وقت تصادم سے گریز

قبل از وقت تصادم کسی بھی انقلابی تحریک کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ تاریخ نے دیکھا ہے بہت ساری انقلابی تحریکیں قبل از وقت تصادم سے گریز نہیں کر سکیں اور نتیجتًا اپنی منزل تک نہ پہنچ سکیں۔ شیخ الاسلام کے تصورِ انقلاب میں کامیابی کے حصول کے لیے قبل از وقت تصادم سے گریز کرنا انتہائی ضروری ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات بھی ہمیں یہی درس دیتی ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا مکی دور، مدینہ میں میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ بھی دراصل قبل از وقت تصادم سے گریز کے نمونے ہیں۔ ان نمونوں کو سامنے رکھتے ہوئے انقلابی تحریک کے کارکنوں کو اپنے جذبات و احساسات کو قابو میں رکھ کر منزل کی طرف چلنا چاہیے اور قیادت کی بتائی ہوئی حکمتِ عملی کے مطابق جد وجہد کو جاری رکھنا چاہیے۔ اپنے آپ کو مضبوط، منظم کرتے ہوئے، اصلاح احوال اور فکری و نظریاتی تربیت کے ذریعے کارکنوں کی بڑی تعداد، رفقاء، وابستگان، ہمدردوں اور بہی خواہوں کا سمندر تیار کرنا انقلابی تحریک کی ترجیح ہوتی ہے۔ جب یہ تقاضے پورے ہو جائیں تو حالات خود بخود ساز گار ہو جاتے ہیں۔

شیخ الاسلام کی انقلابی فکر نے تحریک منہاج القرآن کو جنم دیا۔ انہی کی قیادت میں تحریک اپنے انقلابی سفر کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ حالات کے زیر و بم، سختیوں، مخالفتوں، بے شمار الزام تراشیوں، پراپیگنڈوں اور انقلاب دشمن طبقات کی سازشوں کے باوجود تحریک کا قافلہ آگے ہی بڑھتا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ دنیا بھر میں اس کے نیٹ ورک، تنظیمات، ادارہ جات میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ شیخ الاسلام کی فکر و فلسفہ کی عملی کامیابی کی ایک روشن مثال ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ بالآخر یہی قافلہ منزل مقصود تک پہنچے گا اور اقامتِ دین کی منزل حاصل ہو کر رہے گی۔

شب گریزاں ہو گی آخر جلوہء خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top