ریکارڈ ٹیلیفون کالز (سانحہ ماڈل ٹاون)
مبشر لقمان: 17 جون 2014 کو وزیرِ اعلٰی پنجاب کے موبائل فون سےایک کال کی گئی، اب کچھ موبائل فونز کا ریکارڈ اب ہمیں دستیاب ہے۔ اور اس کے فوری بعد عوامی تحریک کے کارکنان کا ایک قتلِ عام شروع ہو گیا۔ اور ماڈل ٹاؤن ایک مقتل بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دن ان احکامات کے بعد فوری طور پر 10افراداپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور بعد میں یہ تعداد بڑھ کر 16 تک جا پہنچی۔ ذرائع کے مطابق پہلی کال وزیرِ اعلٰی پنجاب نے 9 بجے اپنے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ کو کی اور ا س کے ساتھ 9:03 پر انہوں نے کال رانا ثناءاللہ صاحب کو کی۔ اس کے بعد سابق وزیرِ قانون رانا ثناءاللہ اور میاں شہباز شریف کے پرنسپل سیکریٹری کی جانب سے سی سی پی او لاہور شفیق گجر اور سیکریٹری داخلہ کو کالز کی گئیں۔ رانا ثناءاللہ کی جانب سے 9:12، 11:17 اور پھر دوپہر 12:21 اور 12:25 پر سی سی پی او لاہور شفیق گجر کو کالز کی گئیں۔ پھر ایک منٹ بعددوبارہ 12:26 پرسی سی پی او نے واپس رانا ثناءاللہ کو کال کی۔ اس عرصے کے دوران رانا ثناءاللہ، توقیر شاہ کی جانب سے ہوم سیکریٹری کو کالز کی گئیں۔ اور انہوں نے آگے ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب اور ڈی سی او لاہور کو کالز کیں۔ اس دوران شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری کی جانب سے کالز سی سی پی او لاہور شفیق گجر کو بھی کی گئیں۔
9 بجے وزیرِ اعلٰی کی جانب سے جو کالز کی گئیں اس کے بعد دو چیزیں دیکھنے میں آئیں، منہاج القرآن میں موجود پولیس کا رویہ سخت اور11 بجے کے بعد مزید پولیس کمانڈوز موقع پر پہنچ گئے۔ اور پھر گولیاں چلنا شروع ہو گئیں۔ یاد رکھیں یہ ایک رات پہلے آپریشن شروع ہوا تقریباً 12:30 پر، اور ساڑھے بارہ بجے سے اس وقت تک کوئی گولی نہیں چلی۔ کوئی فائر نہیں ہوا۔ اگر کسی نے پتھراؤ بھی کیا یا لاٹھیاں بھی چلیں توپولیس اور مظاہرین میں لاٹھیاں اور پتھراؤ ہی ہوتا رہا۔ یہ کالز شروع ہوئیں، سب سے پہلے 9:03 پر وزیرِ اعلٰی کی جانب سے، اس کے بعد ایلیٹ فورس کا ایک تازہ دم دستہ وہاں پر بھیجا گیا اور فائرنگ شروع ہو گئی۔ اور پھر ان ایلیٹ کمانڈوز نے 30 سے 35 منٹ کے اندر تقریبا 83 افراد کو گولیاں مار دیں۔ 83 افراد کو ڈائریکٹ شوٹ کیا گیا۔ جن کی زندگی اللہ نے بچانی تھی وہ تو بچ گئے، مگر انہوں نے اپنا کام پورا کر دیا۔ اور شہباز شریف کی جانب سے کی جانے والی 9بجے کی کال کے بعد رانا ثناءاللہ، ہوم سیکریٹری، اور سی سی پی او لاہور کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ اور 9:12سے لے کر 12:26 منٹ تک رابطے میں رہے۔ 5 دفعہ میاں شہباز شریف کی بات ہوئی، اس کے بعد ہوم سیکریٹری کے حکم سے ڈی آئی جی آپریشنز اور ڈی سی او موقع پر پہنچ گئے۔ آپریشن جیسا کہ میں نے آپ کو کہا رات 12:30 پر شروع ہوا اور صبح 9 بجے تک جا ری رہااور کوئی لاش نہیں گری مگر 9بجے سی ایم کی کال کے بعد حالات بدل گئے اور ایلیٹ فورس کو بلا لیا گیا اور 30 سے 35 منٹ میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔
آپ کو میں ایک بات بتاؤں کہ 16جون کو ایک خفیہ میٹنگ ہوئی تھی جس کی بریکنگ نیوز اسی پروگرام کھرا سچ میں 19 جون کو ہم نے دی تھی اور پھر 30جون کو جوڈیشل انکوائری میں ہیرنگ ہوئی تو وہاں رانا ثناءاللہ اور توقیر شاہ نے تسلیم کیا جا کے کہ ہاں یہ ایک خفیہ میٹنگ ہوئی تھی جو آپ کو کھرا سچ میں بتایا گیا۔ آج کھراسچ میں یہ بھی آپ کو خبر دے رہے ہیں جو انتہائی مشکل تھا دینا، بولنا آسان نہیں ہے۔ اگر آپ لاہور میں ہوں اورآپ حاکمِ اعلٰی کے لیے یہ باتیں کہ رہے ہوں تو پھر آپ جانتے ہیں کہ کتنی آسانی سے یہ بات آپ کہ رہے ہونگے۔ لیکن اسد کھرل صاحب مزید تفصیلات!
اسد کھرل: جس طرح آپ نے اس میں کافی تفصیل بتائی ہے کہ رات 12:30پر آپریشن شروع ہوا اور دن 11 بجے تک ایک بھی (casualty) نہیں ہوئی تھی اب وزیرِ اعلٰی نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ 9بجے انہوں نے جو کہ سیکریٹری توقیر شاہ نے اور رانا ثناءاللہ نے 30جون کو کمیشن میں اپنے ایفیڈیوڈ میں تسلیم کیا ہے کہ سی ایم صاحب نے ان کو کالز کی ہیں۔ اور آگے جس طریقے سے آپ نے کالز کی پوری ایک تفصیل بتائی ہے۔ اگر سی ایم 9بجے یہ حکم دے اور اس کی کمپلائنس بھی ہو جائے 9:12تک سی سی پی او لاہور تک بات پہنچ جائے سی ایم کا پیغام، تو یہ کہا جائے کہ ڈس انگیج کیا جائے پولیس کو تو ڈیڑھ گھنٹے بعد پولیس ہٹانے کے بجائے مزید ایلیٹ فورس کی بھاری نفری جو پہنچتی ہے وہاں اور شوٹرز جو پہنچتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ڈس انگیج کا حکم نہیں تھا وہ ایگریسو کاروائی کا حکم تھا چونکہ سی ایم صاحب نے برہمی کا اظہار کیا تھا کہ 12گھنٹے میں آپ سے چار بیریئر نہیں گرائے گئے۔ اور بغیر کسی تاخیر اور کسی قیمت پر یہ روڈ مجھے کلیئر چاہیے۔ اب یہ میسج 9:12پر رانا ثناءاللہ نے من و عن پہنچا دیا سی سی پی او کو 11:17کو اس میسج کی سی ایم صاحب کی کمپلائنس کے لیے انہوں نے پوچھا کہ ابھی تک وہ کلیئر ہوئے ہیں کہ نہیں تب پھر 11:17 کو پولیس کو لگا کہ اب حکومت پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے کیونکہ سیکریٹری سی ایم ہوم سیکریٹری کو بھی فون کر رہے تھے، سی سی او کو فون کر رہے تھے اور رانا ثناءاللہ بھی ایکٹو تھے اور یہ ساری جو مشینری ہے جو کہ رات 12بجے سے وہ لڑ رہے تھے، زخمی ہو رہے تھے پتھراؤ بھی ان پر ہو رہا تھا، لاٹھیاں بھی برس رہی تھیں، بھوکے پیاسے وہ لڑ رہے تھے ایک گولی بھی کسی بندے کو نہیں لگی۔ اب آپ یس سے اندازہ خود لگا لیں کہ کیسا آرڈر ہے کہ ڈیڑھ گھنٹے بعد چونکہ ایگزیکیوٹ پلان پر ٹائم لگنا تھا کیونکہ موو کیا نفری نے وہاں پہنچی، پہنچنے کے بعد انہوں نے پھر ایکشن کر دیا۔ سوال یہ ہے کے اگر سی ایم صاحب نے اگر ڈس انگیج کا آرڈر دیا تو 9:12پر تو وہ سی سی پی او کو پہنچ گیا۔
مبشر لقمان: پہلی بات تو یہ کے سی ایم صاحب کا بیان جو تھا وہ غلط ہوا جھوٹ ہوا جس میں انہوں نے کہا مجھے پتا نہیں تھا کیا ہو رہا ہے۔
اسد کھرل: وہ تو ایفی ڈیوڈ انہوں نے اپنے دے دیے ہیں، ہم نہیں ان کے اپنے جو پرسنل سیکریٹری وہ کہ رہے ہیں۔ اور رانا ثناءاللہ کہ رہے ہیں کہ 9بجے سی ایم صاحب ان سے رابطے میں آ گئے تھے۔
مبشر لقمان: اصل میں آپ کو بتاؤں کہ رانا ثناءاللہ اور پرنسپل سیکریٹری کو سکیب
کوڈ بنایا گیا ہے، ان کے تو نام آگے کر دیے گئے، اصل احکامات تو سی ایم صاحب کے
تھے۔
اسد کھرل: نہیں تو سکیب کوڈ کی جو پریس کانفرنس 20جون کی تھی جو سی ایم صاحب کی اگر
انہوں کے ان کا حکم غلط انداز سے آگے پاس آن کیاتھا، انہوں نے اگر ڈس انگیج کا کہا
تھا اور انہوں نے مزید نفری بھیج کر قتلِ عام کروایا تو پھر اسی دن ان کو پھر اسی
دن سیک کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کے سی ایم کہے کہ آپ واپس آ جائیں
اور وہ جا کر بندے مار دیں اس سے آپ اندازہ لگا لیں اور پریس کانفرنس جس طریقے سے
کی گئی کہ یہ میرے دیرینہ ساتھی ہیں 15سال سے میرے سیکریٹری ہیں۔
مبشر لقمان: میرے پاس وقت کی کمی ہے اور میرے پاس ایک آرڈر ہے پنجاب حکومت کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کا جس میں فارمیشن آف جے آئی ٹی کا بھی ہے جسکو احکامات صرف یہ دیے گئے ہیں کہ جو سرکاری ایف آئی آر کاٹی گئی ہے اس کے تحت انکوائری کی جائے اور اس میں حکومت کے اپنے نامزد ممبران جو ہیں جے آئی ٹی کے اندر انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کر دیا ہے۔
اسد کھرل: جی بالکل اس میں انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر بائیسڈ ایف آئی آر ہے جو کہ پولیس کی مدعیت میں ہے اور اس ایف آئی آر کا مینڈیٹ ہی یہی ہے کہ آپ نے اس ایف آئی آر کے مطابق فائنلائر انویسٹیگیٹ کرنا ہے اور 173 کی رپورٹ پرمرتب کرنی ہے اور اس میں انہوں نے خدشات کا اظہار کر دیا ہے۔
تبصرہ