ہم کرپٹ استحصالی نظام کو ختم کر کے حقیقی جمہوریت بحال کرنا چاہتے ہیں: ڈاکٹر طاہرالقادری
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ہماری 32 سالہ جدوجہد امن اور سلامتی پر مبنی رہی ہے۔ 17جون کو جو ظلم و ستم عوامی تحریک کا کارکنان پر ڈھائے گئے۔ مگر پورے ملک کو پر امن رکھا اور 14 لاشیں گرانے اور 100 افراد کے اقدام قتل پر بھی ہم پر امن رہے۔ 23 جون کو میری آمد پر ہزاروں کارکنان جو میرے استقبال کیلئے آئے تھے۔ 17 جون کے اثر کو زائل کرنے کیلئے پنجاب پولیس نے اپنے دہشت گرد بھجوائے تھے شہباز شریف نے اپنے کئی دہشت گرد پولیس میں بھرتی کئے ہوئے ہیں۔ ن لیگ کے گلو بٹوں نے پولیس کو زخمی کر کے الزام عوامی تحریک کے کارکنان پر ڈال دیا اور اب یوم شہداء پر بھی بھیرہ، جنوبی پنجاب قائد آباد اور دیگر شہروں میں مسلم لیگ (ن) نے سینکڑوں گلو بٹ بھیج کر پولیس کو زخمی کر کے الزام عوامی تحریک پر لگا کر کارکنان دہشت گردی کے مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں اور اب تک 25000 کارکنان گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ یہ بات انہوں نے اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ڈاکٹر رحیق عباسی، خواجہ غلام فرید کوریجہ، بشارت جسپال، قاضی فیض، راجہ زاہد محمود، افتخار شاہ بخاری، فیاض وڑائچ، ڈاکٹر زبیر و دیگر بھی موجود تھے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ یوم شہدا پر ہونے والے خطاب کو روزنامہ جنگ، نوائے وقت اور دی نیوز نے غلط رپورٹ کیا ہے کہ ’’انقلاب کے بغیر کوئی بھی واپس آئے اسے شہید کر دیا جائے‘‘ جو کہ حکومتی دبائو سے غلط رپورٹ کیا گیا حالانکہ جو الفاظ میرے تھے وہ یہ تھے کہ ’’میں اور عمران خان ہم دونوں میں سے قوم سے کئے گئے وعدوں کے مطابق بغیر تبدیلی لائے واپس آ جائے اسے شہید کر دیا جائے، یہ بات ازراہ مذاق کی جا رہی تھی اور اسکا دوسرا معنی یہ لیا جا سکتا ہے کہ قوم اسکا ساتھ چھوڑ دے گی اور وہ سیاسی شہید بن جائے گا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ 14 اگست کے انقلاب مارچ کی تاریخ ہم نے مئی میں فائنل کر دی تھی اور میں نے خود عمران خان کو بتا دیا تھا کہ ہم 14 اگست کو انقلاب مارچ کرینگے جس پر انہوں نے اپنی پارٹی پالیسی کے تحت پہلے اعلان کر دیا جبکہ ہم نے اپنی پارٹی پالیسی کے تحت بعد میں اعلان کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ایجنڈہ نظام کی تبدیلی، افہیم اور تعفن زدہ، فرسودہ نظام جس میں حکمران مدہوش ہیں اور غریب عوام سے اس نطام کی کھلی جنگ جاری ہے۔ ہم کرپٹ استحصالی نظام کو ختم کر کے حقیقی جمہوریت بحال کرنا چاہتے ہیں جبکہ عمران خان الیکشن کے بعد تبدیلی کی بات کرتے ہیں اس طرح کے 10 الیکشنز بھی غریب عوام کے حالات نہیں بدل سکتے۔ نواز شریف کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ تمام الیکشن خرید سکتا ہے لیکن عمران خان اور ہمارے ایجنڈے میں بنیادی اتفاق یہ ہے کہ شریف فیملی کی بادشاہت کو جب تک ختم نہیں کیا جا تا اس وقت تک ملک میں نہ تو حقیقی جمہوریت بحال ہو سکتی ہے اور نہ ہی 18کروڑ عوام کو خوشحالی نصیب ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین اب متفقہ نہیں رہا اس میں حکمرانوں نے اپنی مرضی کی، اپنے فوائد کیلئے ترامیم کی ہیں۔ انقلاب کے بعد ہم عوامی فلاح و بہبود اور انکے حقوق کی بحالی کیلئے بھی 20 ترامیم کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ لاہور میں جو دو قتل ہمارے کارکنوں کے نام ڈال دئیے دی نیشن اور دیگر قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر یہ رپورٹ ہو گیا ہے کہ پولیس کا کانسٹیبل اشرف ٹریفک حادثے میں 8اگست کو زخمی ہوکر 9اگست کو جاں بحق ہوا ہے اور دوسرا کانسٹیبل ڈاکوئوں سے فائرنگ کے تبادلے میں جاں بحق ہوا ہے لیکن یہ دونوں قتل عوامی تحریک پر ڈال دئیے گئے اور ان مقدمات کی اصلیت ظاہر ہونے پر پنجاب حکومت کا جھوٹ پوری دنیا اور قوم پر عیاں ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 14 اگست کو پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کارکنان ایک ہی دن نکلیں گے میں اور عمران خان مل کر قوم کو اس ظالمانہ بادشاہت اور فرسودہ نظام سے قوم کو نجات دلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انکی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔
انہوں نے وزیر اعظم کے اس بیان پر جواب دیا کہ انکے ہر حلقے میں200/400 ووٹ ہیں تو اس طرح پاکستان میں 20000سے 25000 کارکن بنتے ہیں تو میرا یہ سوال ہے کہ وزیر اعظم صاحب پھر آپ ہماری اس تحریک اور انقلاب سے خوفزدہ کیوں ہیں ؟ اور آپ نے شہداء کانفرنس میں آنے والے لاکھوں لوگوں کا راستہ کیوں روکا، ان پر تشدد کیوں کیا، گولیوں کیوں برسائیں، شہید کیوں کیا۔ اگر آپ کو اپنی عوامی قوت پر اتنا ہی اعتماد تھا اور وہ جعلی مینڈیٹ نہیں تھا تو پھر پولیس کے ذریعہ ریاستی جبر و بربریت کیوں کیا؟ اور آپ اتنے بزدل کیوں بن گئے، بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ کا کیوں شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری 32 سالہ جدوجہد پر امن ہے اب جب ہمارے لاکھوں کارکن کروڑوں عوام کو سڑکوں پر لانے کے قابل ہوئے ہیں تب ہم نے اسکا آغاز کیا ہے، آپکی جماعت کا حال تو یہ ہو گیا ہے کہ اب صرف پریس کلب کے باہر مظاہروں والی جماعت بن چکی ہے۔
تبصرہ