پنجاب میں ریاستی اداروں کے مظالم حد سے بڑھ گئے: ڈاکٹر رحیق عباسی
عوامی تحریک کے مرکزی صدر کی ڈسکہ میں مقتول وکلاء کے لواحقین
سے ملاقات اور اظہار تعزیت
وکلاء احتجاج نہ کرتے تو حکمران قاتل ایس ایچ او کو گرفتار کرنے کی بجائے اس کی
سرپرستی کرتے، ورثاء سے گفتگو
لاہور (30 مئی 2015) پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق عباسی نے گزشتہ روز ڈسکہ میں قاتل ایس ایچ او کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے وکلاء کے لواحقین کے گھروں میں گئے اور پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے لواحقین سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، ہم نے بھی پولیس کی فائرنگ سے شہید ہونے والوں کی لاشیں اور گولیوں سے چھلنی اپنے کارکنوں کو کندھوں پر اٹھایا ہے ہمیں اس دکھ اور تکلیف کا اندازہ ہے۔ ڈاکٹر رحیق عباسی نے کہا کہ پولیس کا ظلم حد سے بڑھ گیا ہے۔ پولیس اہلکار اور افسران وہی کچھ کرتے ہیں جس کے انہیں اوپر سے احکامات ملتے ہیں’’اوپر‘‘ بھی 14 شہداء کے قاتل بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ ڈسکہ کے بعد ایس ایچ اوز کی کام چھوڑنے کی دھمکی الٹا چو کوتوال کو ڈانٹنے والا معاملہ ہے اس ڈرامے کے پیچھے بھی حکومت کا ہاتھ ہے کیونکہ حکمران انصاف کیلئے جدوجہد کرنے والے وکلاء کو دباؤ میں لانا اور ان کے خلاف کارروائی کا جواز ڈھونڈنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر رحیق عباسی نے کہا کہ ہم ایک ایسے بدبخت اور ظالمانہ جمہوری عہد میں زندہ ہیں جہاں قانون کے رکھوالے وکلاء بھی ریاستی اداروں کے ظلم کا شکار ہیں اور وہ بھی پولیس کی بربریت کے خلاف سڑکوں پر آنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء اپنا احتجاج بروقت ریکارڈ پر نہ لاتے تو پنجاب کے حکمران قاتل ایس ایچ او گرفتار کرنے کی بجائے اس کی سرپرستی کرتے۔ حکومت ابھی تک وکلاء کے لواحقین کو انصاف دینے کی بجائے ایس ایچ او کو بچانے کیلئے راستے تلاش کررہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے موقع پر بھی انصاف دلوانے کی بڑھک ماری تھی اور بعدازاں قاتلوں سے مل گئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک ڈسکہ میں ہونے والی اس خونریزی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور قاتل ایس ایچ او کو پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کرتی ہے۔
Offering condolence at Bar Council Daska at the murder of two lawyers by killer Punjab Police of Qatil e Aala pic.twitter.com/QNNVZ1vVaL
— Dr. Raheeq Abbasi (@RaheeqAbbasi) May 29, 2015
تبصرہ