سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا فیصلہ ضرور ہوگا اور قاتل اپنے انجام کو پہنچیں گے: سربراہ عوامی تحریک

مورخہ: 24 جون 2016ء

پانامہ تحقیقات کومنطقی انجام تک پہنچانا اپوزیشن کی قومی ذمہ داری ہے: ڈاکٹر طاہرالقادری
کس نے کتنا قرضہ لیا اور معاف کروایا یہ حقائق جسٹس جمشید کمیشن کی رپورٹ میں محفوظ ہیں

لاہور (24 جون 2016) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ پانامہ تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانا اپوزیشن کی قومی ذمہ داری ہے۔ موجودہ حکمران کرپشن کے نظام کے بانی اور دہشت گردوں کے سپورٹر ہیں۔ جب تک یہ حکمران اور یہ نظام رہے گا لاشیں اٹھتی رہیں گی، خزانہ لٹتا رہے گا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا فیصلہ ضرور ہوگا اور قاتل اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ ٹی او آرز کے نام پر حکومت نے قوم اور اپوزیشن کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ میں دہشتگردی اور کرپشن میں لتھڑے ہوئے اس نظام اور اس کے محافظوں کو انجام سے دو چار ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ وہ گزشتہ روزپاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں سے گفتگو کررہے تھے۔ سربراہ عوامی تحریک نے کہا کہ دہشت گردی کا وائرس قومی جسم میں موجود ہے۔ جب تک اس کا علاج نہیں ہوگا پائیدار امن کے دعوے خوش فہمی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب ضرور کامیاب ہوا مگر پہاڑوں میں جیتی ہوئی جنگ نااہل اور کرپٹ حکمران سرسبز میدانوں میں ہار رہے ہیں۔ قومی ایکشن پلان کو ڈیڑھ سال ہوگیا ابھی تک قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ریفارمز کا آغاز نہیں ہوا اور نہ ہی سپیڈی جسٹس کی طرف سنجیدہ توجہ دی گئی۔ نیب کا رویہ آج بھی پنجاب کے معاشی دہشتگرد وزیروں، مشیروں کیلئے برادرانہ ہے۔ جب تک موجودہ حکمران برسراقتدار رہیں گے قانون کا منصفانہ اطلاق ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں امجد صابری کی شہادت اور چیف جسٹس کے بیٹے کے اغواء سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر نے اپنی بھرپور موجودگی کا پیغام دیا ہے۔

سربراہ عوامی تحریک نے ٹی او آرز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم کے خاندان کا براہ راست نام آیا اور انہوں نے غیر مشروط طور پر خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کی بجائے ایبٹ آباد کمیشن اور حمود الرحمان کمیشن کی تحقیقات کو پانامہ لیکس کے ٹی او آرز کا حصہ بنانے کا مطالبہ کردیا جو افسوسناک ہی نہیں قابل مذمت اور قابل گرفت بھی ہے۔ ان دونوں ایشوز کا پانامہ لیکس سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس ایک سادہ سا مسئلہ تھا وزیراعظم کو قوم کو بتانا چاہیے تھا کہ انہوں نے کس پیسے سے 92ء، 93ء، 95ء میں بیرون ملک جائیدادیں خریدیں اور پھر انہیں سالوں کی ٹیکس ریٹرنز اور انتخابی گوشوارے کے ثبوت قوم کے سامنے رکھ دیتے مگر ایسا نہیں ہوا اور صورتحال الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی ہو چکی ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کے ساتھ ساتھ 1947 سے لیکر تاحال قرضے معاف کروانے والوں کو بھی ٹی او آرز میں شامل کرنے کی ضد کی گئی حالانکہ 2012ء میں سپریم کورٹ کے جسٹس جمشید کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا تھا جس نے 1975 سے لے کر 2012 تک قرضے لینے اور معاف کرانیوالوں کی ایک رپورٹ مرتب کی تھی۔ یہ رپورٹ 5 ہزار صفحات پر مشتمل ہے اس رپورٹ پر 3 سال تک کارروائی نہ کرنے کے موجودہ حکمران مجرم ہیں، انہوں نے کہاکہ جسٹس جمشید کی رپورٹ پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟ اس رپورٹ کو 2013 کے عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کے پاس ہونا چاہیے تھا اور اس رپورٹ کی روشنی میں آرٹیکل 62، 63 کے تحت امیدواروں کی سکروٹنی ہونی چاہیے تھی جو نہیں ہونے دی گئی۔ موجودہ حکمران کن قرضوں کی معافی کی بات کرتے ہیں اس پر تو کمیشن اپنی فائنڈنگ دے چکا ہے صرف کیس عدالتوں میں بھجوانے کی دیر ہے۔

تبصرہ

ویڈیو

پیش آمدہ مواقع

Ijazat Chains of Authority
Top