ڈاکٹر طاہرالقادری سعودی عرب میں منعقدہ او آئی سی کے اجلاس میں خطاب کریں گے
قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کیلئے لاہور سے سعودی عرب کے شہر ریاض پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ او آئی سی کے اجلاس میں کاؤنٹر ٹیررازم پر خطاب کرینگے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کیلئے خصوصی طور پر مدعوکیا گیا ہے۔ او آئی سی کا اجلاس 9 اور 10 اپریل کو ریاض میں منعقد ہورہا ہے۔
اجلاس میں ڈاکٹر طاہرالقادری عالم اسلام کی طرف سے انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے متفقہ لائحہ عمل اور نصاب تیار کرنے سے متعلق تجاویز بھی دیں گے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطاب اور سوال و جواب کیلئے خصوصی سیشن رکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے فروغ امن اور انسداد دہشتگردی کے موضوع پر انگریزی، عربی اور اردو میں اب تک 40 سے زائد کتب تحریر کی ہیں۔ او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کیلئے انہوں نے کاؤنٹر ٹیررازم اور ’’پیس کریکولم‘‘ کے حوالے سے مزید 3 کتب تحریر کی ہیں جن کی تقریب رونمائی او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر ہوگی۔ اجلاس کے دوران یہ کتب او آئی سی کے ممبر ممالک کے شرکاء مندوبین کو مطالعہ کیلئے پیش بھی کی جائینگی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی فروغ امن، علمی کاوشوں اور دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک نکتہ نظر رکھنے پر او آئی سی نے انہیں خطاب کی خصوصی دعوت دی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری او آئی سی کے اجلاس میں 100 صفحات پر مشتمل اپنی امن فلاسفی پیش کرینگے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے 2010ء میں انسداد دہشت گردی اور خودکش دھماکوں کے خلاف 600 صفحات پر مشتمل ایک فتویٰ دیا تھا جس کا اب تک دنیا کی 13 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اسے یورپ اور سنٹرل ایشیا میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور اسلام پر متشدد دین ہونے کا الزام لگانے والوں کو موثر جواب ملا، اس فتویٰ میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں ثابت کیا کہ اسلام ایک پرامن دین ہے اور اسلام میں بے گناہ کی جان لینا حرام ہے اور ریاست کی اجازت کے بغیر کوئی فرد یا جماعت ہتھیار نہیں اٹھا سکتی، جہاد کے اعلان کا حق صرف ریاست کو ہے۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 1999ء سے اسلام کے پرامن پیغام اور انتہا پسندی سے پاک تشخص کو دنیا بھر میں مختلف بین الاقوامی کانفرنسز کے انعقاد کے ذریعے اجاگر کررہے ہیں، انہوں نے اس عنوان کے تحت ناروے، لندن، گلوسگو سمیت یورپ کے کئی ممالک میں کانفرنسز سے خطاب کیا اور امن کی اہمیت اجاگر کی۔
تبصرہ