کسی واقعہ کی تفتیش کیلئے ایک سے زائدجے آئی ٹی بھی بن سکتی ہیں: بیرسٹر علی ظفر

سپریم کورٹ کے فیصلے نچلی عدالت میں زیر بحث نہیں لائے جاسکتے
جب سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا آرڈر دیا تو ملزمان نے کوئی اعتراض نہیں کیا
یہ ری ویو پٹیشن میں جا سکتے تھے، ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن دائرنہیں کر سکتے
ادارہ منہاج القرآن پر حملہ کے وقت کوئی احتجاج یا دھرنا نہیں ہورہا تھا
ججز سمیت پوری دنیا نے میڈیا کے ذریعے ماڈل ٹاون کا ظلم دیکھا
گھر بیٹھے لوگوں کومارا گیا، ریاستی مشینری کا بے رحم استعمال ہوا، دلائل
پنجاب حکومت کے حکم پرپولیس نے ماڈل ٹاؤن میں ظلم کیا

model town case updates

لاہور (21 دسمبر2022ء) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی کی سربراہی میں 7رکنی لارجر بنچ نے گزشتہ روز سانحہ ماڈل ٹاؤن جے آئی ٹی کیس کی سماعت کی۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکیل بیرسٹر علی ظفر ایڈووکیٹ نے دلائل دئیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی واقعہ کی تفتیش کیلئے ایک سے زائدجے آئی ٹی بھی بن سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نچلی عدالت میں زیر بحث نہیں لائے جاسکتے، ادارہ منہاج القرآن پر حملہ کر کے گھر بیٹھے لوگوں کو مارا گیا جب حملہ ہوا تو کوئی احتجاج یا دھرنا نہیں ہو رہا تھا۔ 17 جون 2014ء کے روز اس وقت کی حکومت کے حکم پر پولیس نے گولی چلائی اور بے گناہ شہری قتل کئے۔ پولیس ہماری ملزم تھی جبکہ اس سانحہ کی تفتیش بھی اسی پنجاب پولیس سے کروائی گئی۔ دوسری جے آئی ٹی بنانے کے موقع پر سپریم کورٹ نے تمام ملزمان کو بمعہ ان پٹیشنرز کو نوٹس جاری کئے تھے۔ یہ سب لوگ وہاں پر پیش ہوئے تھے۔ اس وقت انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ اگر انہیں سپریم کورٹ کے آرڈر پر کوئی اعتراض تھا تو یہ ری ویو پٹیشن میں جا سکتے تھے مگر یہ نہیں گئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم کو ججز سمیت پوری دنیا نے میڈیا کے ذریعے دیکھا۔ یہ قتل عام انگریز دور کے بعد دل دہلا دینے والا ہے۔ اس واقعہ میں ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال ہوا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دو ایف آئی آر درج ہوئیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دوسری جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنی۔ دوسری جے آئی ٹی کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نوٹس لیا اور فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسا ظلم اور حکومتی دہشت گردی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں حکومت، تفتیشی اور ملزم ایک ہی ہیں۔

مزید سماعت 22 دسمبر 2022ء کو ہو گی۔ عدالت میں اظہر صدیق ایڈووکیٹ اور نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ موجود تھے۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top