پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں خصوصی لیکچر
منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین، ماہرِ معیشت پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ”اسلامی معیشت اور درپیش چیلنجز“کے موضوع پر منعقدہ خصوصی سیشن میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور، راجہ حسن اختر اورعدنان بٹ و چیمبرز کے ممبرز نے پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کو خوش آمدید کہا اور یادگاری شیلڈ دی۔
چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں منعقدہ خصوصی اکنامک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ محدود وسائل اور لامحدود خواہشات کی وجہ سے آج پوری قوم کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشی حوالے سے بدترین دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے فوری 7 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ تاجر برادری کو عزت اور اعتماد مل جائے تو اس رقم کا بندوبست ممکن ہے۔ پالیسیوں کے عدم تسلسل نے معاشی بحران کو گہرے سے گہرا کیا۔ ماہرین پر مشتمل ایک نمائندہ اکنامک کونسل بنائی جائے۔ اکنامک کونسل اگلے 15 سال کے لئے معاشی روڈ میپ تیار کرے۔ چین، کوریا اور ملائیشیا نے ابتداء میں اکنامک کونسل بنا کر 20 سالہ معاشی پالیسی ترتیب دی اور ترقی کی۔ ایران نے طویل ترین پابندیوں کا سامنا کیا مگر انہوں نے اعتدال، میانہ روی اور پالیسیوں کے تسلسل کے ذریعے بطور ریاست اپنا تجارتی وجود برقرار رکھا۔ ہم امداد اور قرضے لے کر بادشاہوں کی طرح خرچ کرتے رہے۔ پاکستان کو بھی ایک آزاد، خودمختار، بااختیار اکنامک کونسل کی ضرورت ہے جس کا سیاسی اتار چڑھاؤ سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ حکومتوں کے آنے جانے سے بھی اس کونسل اور اس کے روڈ میپ کو کوئی فرق نہ پڑے۔ اکنامک کونسل کو حکومت سمیت سپریم کورٹ اور اداروں کی گارنٹی حاصل ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے جی ڈی پی کے 80 فیصد سے زائد قرضے لے چکا۔ 60 فیصد کے بعد ملک ڈیفالٹ کر جاتے ہیں۔ پاکستان نے آئندہ مہینوں میں اربوں ڈالرکے قرضے واپس بھی کرنے ہیں۔ سب کچھ بھی بیچ دیا جائے تو پھر بھی یہ قرض واپس نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظامِ معیشت اچھی نیت، سوچ، رویے، ویلفیئر اور خودانحصاری کا نام ہے۔ ہمیں آمدن کے مطابق اخراجات کرنے کی انفرادی اور قومی سطح پر عادت ڈالنا ہو گی۔ ہر حکومت اپنا وقت نکالنے کے لئے ملک اور قوم پر قرضوں کا بھاری بوجھ چھوڑ دیتی ہے۔ یہ سوچ حب الوطنی کے تقاضوں کے برعکس ہے۔ آئندہ الیکشن نہیں ملک و قوم کے مستقبل کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی مشکلات کا حل سادگی، اعتدال اور میانہ روی میں ہے۔ بنگلہ دیش کاٹن پیدا نہیں کرتا مگر خطہ میں ٹیکسٹائل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن گیا۔ پچھلے دس سالوں میں غریب ملکوں نے ترقی کی جبکہ پاکستان میں غربت، قرضوں اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے چار سالوں میں بیروزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تجارت اور نظام معیشت کی روح غربت کا خاتمہ ہے مگر یہاں سارا بوجھ غریبوں پر ڈالا جارہا ہے۔ ہم اللہ کو ناراض کررہے ہیں۔ اسلام کی تشریح ایسے لوگ کررہے ہیں جن کا تجارت، معیشت اور اسلامی تعلیمات کا علم محدود ہے۔ امیر طبقہ 500 لوگوں کو راشن دینے کی بجائے 50 لوگوں کو کاروبار کروائے اور ان کو پاؤں پر کھڑا کرے تاکہ اگلے سال وہ مدد لینے والے نہیں دینے والے بن جائیں۔
انہوں نے کہا ملک کا مستقبل ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے۔ اس قوم کو آئی ٹی ایکسپرٹس کی ضرورت ہے۔ اس شعبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری رائیگاں نہیں جائے گی۔ زراعت اور آبی ذخائر کی تعمیر پر توجہ نہیں دی گئی۔ پچھلے 4 سال میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں ایک بوند کا اضافہ نہیں ہوا۔ 40 فیصدآبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے جبکہ 78 فیصد آبادی کی ماہانہ آمدن 40 ہزار روپے سے کم ہے۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے مزید ایک کروڑ شہری خط غربت سے نیچے چلے گئے۔ پاکستان کے واجب الادا قرضے 54 ٹریلین روپے ہو چکے۔ معاشی کارکردگی کے اعتبار سے پاکستان 131 ملکوں میں 89ویں نمبر پر ہے۔ کرپشن میں پاکستان کا نمبر 140واں ہے۔ فوری طور پر جن ملکوں کے ڈیفالٹ کر جانے کی تلوار منڈلا رہی ہے ان میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ کاروبار کرنے کی سہولت مہیا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر 108واں ہے یعنی بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے پاکستان پرکشش ملک نہیں ہے جبکہ انڈیا 63 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کا شمار افریقی ملکوں کی اکانومی میں ہو رہا ہے۔ شرح خواندگی کئی سالوں سے 62 فیصد پر ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں پاکستان کے شہر نمبر ون پوزیشن حاصل کررہے ہیں۔ کوڑا کرکٹ ری سائیکل کرنے کی بجائے خالی جگہوں پر ڈمپ کیا جارہا ہے جس سے آلودگی مزید پھیل رہی ہے۔ زرخیز زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور فارم ہاؤسز میں تبدیل کر کے پاکستان کو فاقوں اور قحط کی طرف دھکیلا گیا۔ ہماری کوئی کنسٹرکشن پالیسی نہیں ہے۔ جنگلات ختم کرنے سے آئندہ سالوں میں مزید خوفناک سیلابوں کے آنے کی پیشگوئیاں ہو چکی ہیں۔ حالیہ بین الاقوامی کانفرنس میں 10 ارب ڈالر کے اعلانات ہوئے مگر یہ امداد اور قرضے پراجیکٹ بیسڈ ہیں۔ اس سے ڈیفالٹ سے نکلنے میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کا نظام تہس نہس ہو چکا ہے۔ سودی نظامِ معیشت سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی جب تک سودی معاشی نظام رہے گا بحران بھی رہیں گے۔
انہوں نے اسلامی اخلاقیات تجارت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کاروباری لین دین میں قسمیں کھانے والوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا خودمختاری کی زندگی اختیارکریں۔ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے والا کبھی خوشحال نہیں ہوتا۔ ہاتھ پھیلانے والوں کواللہ ہمیشہ محتاج رکھتا ہے۔ پاکستان اتنی بھیک مانگتا ہے کہ دنیا میں مذاق بن گیا۔ خودانحصاری اور مواخات کو اسلامی معیشت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ہمارا متمول مسلم طبقہ زکوٰۃ دینے کی بجائے زکوٰۃ چرانے کے لئے مفتیوں سے فتوے مانگتا ہے۔ بیروزگار نوجوان سفارش اور مدد تلاش کرنے کی بجائے دستیاب وسائل کے ساتھ کاروبار کریں۔ کاروبار کرنے والوں کو اللہ 20 راستوں سے خوشحالی دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا خرچ میں میانہ روی آدھی معیشت ہے۔ اعتدال کی راہ اختیار کرنے والا کبھی غربت کا شکار نہیں ہوتا۔
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے راجہ زاہد محمود، راشد چودھری، الطاف رندھاوا ودیگر کو بھی خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر چیمبر آف کامرس کی قیادت نے کہا کہ ہم اپوزیشن اور حکومتی نمائندوں سے کہہ رہے ہیں چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو پھر ہم آئندہ انتخابات میں عوام کو بائیکاٹ کرنے کا کہیں گے۔
تبصرہ